Monday, 31 December 2012


قومِ لوط کے شہرِ سدوم سے شہرِ روشن خیالی واشنگٹن اور پنٹاگون تک

حضرت لوط علیہ السلام کا زمانہ عین وہی ہے جو ابراہیم علیہ السلام کا تھا۔ اللہ سبحان تعالیٰ انہیں حضرت ابراہیم کےاس نواحی علاقے میں پیغمبر بنا کر بھیجا گیا تھا جس کے باسی آج کے تعلیم یافتہ مغرب و امریکہ کے روشن خیال امن گردوں کی طرح اغلام جیسے پلید فعل کی عادتِ بد میں مبتلا تھے۔ جب اللہ کے پیغمبر نے ان لوگوں کو اس بد فعلی سے روکا اورانہیں اللہ کی طرف سے دی گئی تنبیہ پہنچائی تو انہوں نے لوط علیہ السلام کو اللہ کا نبی ماننے اور نصیحت قبول کرنے سے صاف انکارکردیا اورغیرفطری فعل سے تسکینِ ہوس کا شغل جاری رکھا۔ بالآخر اللہ کی طرف سےان نافرمانوں پر شدیدعذاب نازل ہوا اور یوں وہ لوگ ایک عبرت انگیزحادثے کی بناء پرروئے زمین سےہمیشہ ہمیشہ کیلئے نیست ونابود ہوگئے۔ قوم لوط کےمسکن اس شہرکوعیسائیوں کی ہی مقدس کتاب عہد نامہء عتیق قدیم ( اولڈ ٹسٹامنٹ ) میں “سدوم” یعنی گناہ گاروں یا بدفعلیاں کرنے والوں کے شہر کا نام دیا گیا ہے۔ مسلمان کی حیثیت سے ہمارا کامل ایمان  ہے کہ قرآن حکیم اللہ کا کلام ہے اور حق الیقین یہ کہ اس میں جو بھی لکھا ہے وہ عین سچ ہے۔ لہذا اردن اور اسرائیل کی سرحد پر بحیرہ مردار کے قریب و جوار میں واقع یہ فنا شدہ شہر یقیناً اسی انداز میں تباہ ہوا ہوا ہو گا جیسا کہ کتاب الہی میں بتایا گیا ہے
یہ کسی جاہل اور بنیاد پرست  مسلم یا دہشت گرد مولوی کا کہنا نہیں بلکہ خود خالق کائنات فرماتا ہے کہ
قوم لوط نے (ان کی) تنبیہ کو جھٹلایا۔ ہم نے پتھراؤ کرنے والی ہوا ان پر بھیج دی (جس نے انہیں تباہ کردیا)، صرف لوط علیہ السلام کے گھر والے اس سے محفوظ رہے، جنہیں ہم نے اپنے فضل سے صبح ہونے سے قبل (وہاں سے ) بچا کر نکال لیا۔ ہم ہر اس شخص کو جز ا دیتے ہیں، جو شکر گزار ہوتا ہے۔ اور لوط نے اپنی قوم کے لوگوں کو ہماری (جانب سے بھیجی گئی) سزا سے خبردار کیا لیکن وہ ساری تنبیہات پر شک کرتے اور انہیں نظر انداز کرتے رہے۔‘‘
(
سورہ القمر۔آیات 33 تا 36 )

غلاظت اور بدفعلی میں مبتلا قوم لوط پر اللہ تعالی نے مختلف قسم کےسخت ترین عذاب نازل کئے،رات کے آخری حصہ میں ایک فرشتے نے ہیبت ناک چیخ ماری جس نے انہیں زیر و زبر کردیا، چالیس لاکھ پر مشتمل آبادی کو آسمان تک لیجا کر الٹ دیا گیا اوران پر پتھروں کی لگاتار بارش برسا کر صفحہ ہستی سے ان کا نام و نشان مٹا دیا۔ آج مسٹر کلین مغرب اور ماڈرن فرعون امریکہ کا روشن خیال معاشرہ اسی فعل بد کو اپنی زندگی کا آئینی اور قانونی حصہ بنا کر عذاب الہی کو کھلی دعوت دے رہا ہے

اس حوالے سے خبریں ہیں کہ صدر اوبامہ کی منظوری کے بعد دو امریکی ریاستوں میری لینڈ اور مینی میں ہم جنس پرست شادیوں کو قانونی حیثیت دے دی گئی ہے، میری لینڈ میں 52 فیصد ووٹروں نے ہم جنس پرست شادیوں کی حمایت جبکہ 48 نے مخالفت کی۔ ریاست مینی میں 54 فیصد نے حمایت اور 46 فیصد نے مخالفت کی۔ یاد رہے کہ میری لینڈ، کولراڈو اور واشنگٹن میں عوام کی اکثریت نےمیری جونا یعنی چرس کو کھلےعام استعمال کرنے کے حق میں بھی ووٹ دیا ہے جبکہ امریکہ میں اس کے کھلےعام استعمال پرپابندی عائد ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ملالہ جی کےآئیڈیل انکل اوبامہ شہرِ پینٹاگون واشنگٹن میں بھی ان ہم جنس پرستی کے اقدام کی منظوری دیتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں،جہاں 52 فیصد نےحمایت اور 48 فیصد مخالفت میں ووٹ پڑے ہیں۔ خبریں یہ بھی کہ پینٹاگون کے متعدد فوجی جرنیل بھی ہم جنس پرستی اورجنسی سکینڈلوں میں ملوث ہیں۔ مسلمانوں کو دین سے دور کرنےکی دجالی کوششوں میں سرگرم امریکی قرآن کے منکر سہی اپنےعیسائی مورخین ہی کی لکھی تاریخ عالم پڑھ لیں تومعلوم ہو جائے کہ اہلِ پومپیائی کا انجام بھی کچھ ایسا ہی ہوا ۔
مندرجہ ذیل آیات میں قرآن حکیم کھل اعلان کر رہا ہے کہ اللہ کے قوانین میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔
’’یہ لوگ کڑی کڑی قسمیں کھا کر کہا کرتے تھے کہ اگر کوئی خبردار کرنے والا ان کے ہاں آگیا ہوتا تو یہ دنیا کی ہر دوسری قوم سے بڑھ کر راست رو ہوتے۔ مگر جب خبردار کرنے والا ان کے ہاں آگیا تو اس کی آمد نے ان کے اندر حق سے فرار کے سوا کسی چیز میں اضافہ نہ کیا۔ یہ زمین میں اور زیادہ سرکشی کرنے لگے اور بری بری چالیں چلنے لگے ، حالانکہ بری چالیں اپنے چلنے والوں ہی کو لے بیٹھتی ہیں۔ اب کیا یہ لوگ اس کا انتظار کر رہے ہیں کہ پچھلی قوموں کے ساتھ اللہ کا جو طریقہ رہا ہے وہی ان کے ساتھ بھی برتا جائے؟ یہی بات ہے کہ تم اللہ کے طریقے میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے اورتم کبھی نہ دیکھو گے کہ اللہ کی سنت کو اس کے مقرر راستے سے کوئی طاقت پھیر سکتی ہے‘‘۔
(
سورہ الفاطر۔ آیات 42 تا 43 )

اللہ کے طریق اور قانون میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ اس کے جو قوانین قوم لوط اور فرعون و نمرود کیلئے تھے وہی قوم پومپیائی کیلئے تھے اور وہی آج امریکی، مغربی اور ایشیائی مخلوق یا ہمارے کیلئے بھی ہیں ہر وہ شخص جو اس مقتدر اعلی کے متعین کردہ قوانین کی خلاف ورزی کرے گا اس کے نظام کے خلاف متحرک ہوگا اسے انہی قوانین الہٰی کے تحت سزا ملے گی۔ سلطنت روم کی تنزلی کی علامت، پومپیائی کے لوگ بھی قوم لوط کی مانند جنسی بے راہ روی، بدفعلی، بدکاری اورغیر فطری فعل کی عادتوں میں مبتلا تھے۔ ان کا انجام بھی بالکل وہی ہواجو قوم لوط کا ہوا تھا۔ یاد رہے کہ پومپیائی کی تباہی، ویسو ویئس آتش فشاں کے پھٹنے سے ہوئی۔ یہ آتش فشاں، اٹلی کا یہ آتش فشاں پچھلے دو ہزار سال سے خاموش ہے۔اس کے نام’’ویسوویئس‘‘ کا مطلب ہے’’ تنبیہ کا پہاڑ‘‘ اوریہ نام بھی بلاوجہ نہیں رکھا گیا ہے۔ جیسی آفت نے گمراہ سدوم کو نیست و نابود کیا تھا بالکل ویسی ہی آفت نے پومپیائی کو بھی تباہ وبرباد کیا۔ ویسو ویئس پہاڑ کے ایک طرف نیلپس ہے تو دوسری طرف مشرق میں پومپیائی واقع ہے۔ یہی پہاڑ آج سے دوہزار سال پہلےاچانک پھٹ پڑا، ایک بڑی مقدار میں لاوا اور گرم راکھ، اس سے ابل پڑے اور پومپیائی شہر کے باسی (لاوے اور راکھ میں) گھر کر رہ گئے۔ یہ بھیانک حادثہ اتنی تیزی سے رونما ہوا کہ شہر کی  ہرایک  شےاور ایک ایک باسی، روز مرہ معمولات سرانجام دیتے ہوئے اس کا شکار ہوگیا اور یہ لوگ آج تک اسی حالت میں پڑے ہیں جیسے کہ وہ دوہزار سال پہلےتھے۔ گویا وقت ان کے لئے تھم گیا ہو۔ پومپیائی کی اس انداز میں قدرتی آفت کے ذریعے تباہی یقیناً بےمقصد نہیں تھی۔ تاریخی ریکارڈ ظاہر کرتاہے کہ یہ شہر بدکاری اور بدفعلی جیسی برائیوں کا عین مرکز تھا۔ یہ شہر بدکاری کے ضمن میں خصوصی شہرت رکھتا تھا اور یہ چیز اس شہر میں اتنی زیادہ تھی کہ وہاں قحبہ خانوں کی درست تعداد تک معلوم نہیں ہوسکی ۔ بے ہودگی اور بے شرمی تمام حدوں کو پارکرچکی تھیں پومپیائی میں قحبہ خانوں کے دروازوں پرمردانہ اعضائے تناسل کی اصل جسامت کے پتھر کے بنے ہوئے نمونےلٹکائے جاتے تھے۔ یہاں پر متھرائی عقیدے کے مطابق اختلاط بھی کھلےعام کیا جاتا تھا۔ مگر ویسوویئس کے لاوے نے پورے شہر کو صرف ایک لحظے میں صفحۂ ہستی سے مٹادیا۔ اس واقعے کا سب سے عبرتناک پہلو یہ ہے کہ اتنے بھیانک آتش فشانی ابال کے باوجود شہر کا ایک فرد بھی بچ کر نہیں بھاگ سکا۔ یوں لگتا ہے جیسے انہیں یہ آفت آنے کا احساس بھی نہیں ہوا ہو گا یا پھر وہ اس آفت کے نزول پر مسحور تھے۔ کھانا کھاتے ہوئے ایک گھرانہ چشم زدن میں پتھرا گیا۔ متعدد جوڑے بحالت اختلاط پتھرا گئے۔ ایک اور سب سے توجہ طلب چیز یہ بھی ہے کہ ان میں سے کئی جوڑے، ہم جنس پرستوں کے ہیں جنہیں اسی حالت میں اللہ کے عذاب نے آن گھیرا۔ گرم راکھ اور لاوے نے انہیں کوئی مہلت دیئےبغیر پتھر کے بتوں میں تبدیل کردیا۔ پومپیائی سے برآمد ہونے والی بعض پتھریلی لاشوں کے چہروں پر بھی خوف کا کوئی نشان نہیں ہے۔ بیشتر لاشوں کے چہروں پر حیرت، سراسیمگی یا پریشانی جیسے تاثرات عموماً پائے گئے ہیں۔

اس آفت اورآفت رسیدگی کا ایک ناقابل فہم پہلوبھی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہزاروں لوگ کچھ بھی دیکھے اور سنے بغیر موت کا نوالہ بننے کا انتظار کرتے رہے ہوں؟یہی پہلو ہمیں بتاتا ہے کہ پومپیائی لوگ بھی بالکل ویسے ہی تباہ کن عوامل کا شکار ہوئے جن کے بارے میں قرآن نے وضاحت فرمائی ہے، کیونکہ قرآن جب کبھی ایسے واقعات کا حوالہ دیتاہے تو’’اچانک تباہی‘‘ کا صرف ایک اشارہ دیتا ہے۔ مثال کے طور پر سورہ یاسین میں بیان کردہ ’’شہر کے باسی‘‘ ایک لمحے میں تمام کے تمام مرگئے۔ یہ کیفیت سورہ یاسین کی 29 ویں آیت میں کچھ اس طرح بتائی گئی ہے

’’بس ایک دھماکہ ہوا اور یکایک وہ سب بجھ کر ( اور خاموش ہوکر ) رہ گئے‘‘۔


سورہ القمر کی 31 ویں آیت میں  قوم ثمود کی تباہی کا تذکرہ کرتے ہوئے ’’اچانک تباہی‘‘ کا حوالہ دیا گیا ہے۔
’’ہم نے ان پر بس ایک ہی دھماکا چھوڑا اور وہ باڑے والے کی روندی ہوئی باڑ کی طرح بھس ہوکر رہ گئے۔‘‘

پومپیائی کے لوگوں کی موت بھی ایسی ہی سرعت رفتاری کے ساتھ ہوئی جس کا تذکرہ مذکورہ بالا آیات میں کیا گیا ہے۔ لیکن تعجب ہے کہ اس کے باوجود، جہاں کبھی پومپیائی تھا، اس کے آس پاس کےلوگوں نے اب تک کوئی خاص عبرت نہیں پکڑی ہے۔ نیپلس کے اضلاع، جہاں عیاشی اوراوباشی کی اجارہ داری ہے، پومپیائی والوں کی بے راہروی اور شہوت پرستی سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ کیپری کا جزیرہ ہم جنس پرستوں اور بے لباسوں کا گڑھ ہے۔ سیاحوں کے لئے نشر ہونے والے اشتہارات میں کیپری کو’’ ہم جنس پرستوں کی جنت‘‘ کے طور پر بھی پیش کیا جاتا ہے۔ معاملہ صرف کیپری جنریرے یا اٹلی تک ہی محدودنہیں، بلکہ قریب قریب تمام مغربی دنیا ، مشرق بعید اور سیکولر بھارت کی یہی صورتحال ہوتی جارہی ہے۔ اسی طرح اخلاقی زوال پذیری ہروقت روبہ عمل ہے اورآج کے لوگ، ماضی کی تباہ شدہ، معدوم ومعتوب تہذیبوں کے لوگوں سےعبرت پکڑنے کے لئے تیار نظر نہیں آتے۔ اور یہی امریکہ اور اس کے حواری مغرب کے تاریک الفطرت صاف ستھرے لوگوں کی عین “روشن خیالی” ہے۔ جو بہت جلد انہیں قوم لوط اور پومپیائی کی طرح لے ڈوبے گی۔ بحرحال ملالہ جی کے چہیتے انکل اوبامہ کے دیس کے صاف ستھرے لوگوں اور پاکستانی میڈیا کے رول ماڈل پڑھے لکھے مغربی معاشرے، تعلیم یافتہ امن گردوں کے ہر شہر ِ پلیدستان و غلاظت آباد کو ذلالت کی انتہا کی سمت مادر پدرآزادی کا سفرمبارک رہے۔ تاریک خیال مسلم حلقوں کیلئے یہ بات کسی تعجب کا باعث نہیں تھی کہ جون 2012 میں امریکی وزیردفاع لیون پینٹا نےامریکی فوج میں شامل ہم جنس پرست خواتین وحضرات کوعزت و توقیر سےنوازنے کیلیےایک محبت بھرا ویڈیو پیغام جاری کیا تھا۔ جس کےبعدامریکی پنٹاگان کی تاریخ میں پہلی بار، جون کو ہم جنس پرستوں کے ماہِ  فخر کے طور پرمنایا گیا تھا۔ یہ سب حالات بتا رہے ہیں کہ قوم لوط کے شہر ِ سدوم کے بھیانک انجام اور پومپیائی کی تباہی کی داستان عبرت کی طرح امریکہ کے انجام ِ بد کا باب کھلنے میں اب زیادہ دیرباقی نہیں۔ ممکن ہے کہ اب امریکہ سے کچھ ایسی خبریں بھی موصول ہوا کریں کہ کسی حسینہ کے منگیتر نے گھر سےبھاگ کراس کے سابقہ بوائے فرینڈ سےشادی کرلی ہے۔ ہم جنس پرستوں کی شادیوں کے قانون کی منظوری دینے سے پہلے صدراوبامہ کو بھی سوچنا چاہیئے تھا کہ کچھ بعید نہیں کہ دنیا میں  کبھی یہ خبر بھی زیرِ گردش ہوکہ امریکی خاتون اول نےاوبامہ جی کی گرل فرینڈ سے شادی رچا لی۔ ابھی تازہ ترین یہ ہےکہ روس کے ٹکرے ہونےجیسی کہانی پے درپے طوفانوں کی زدمیں آئےامریکہ میں بھی دہرائےجانے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ خبریں ہیں کہ اوبامہ کی جیت کے ساتھ ہی بیس امریکی ریاستوں نے ( ان میں امریکی جمہوریہ پاکستان کا نام شامل نہیں ہے ) علیحدگی کا مطالبہ کر دیا ہے ۔۔۔۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا




No comments:

Post a Comment