دھماکے
سے مشرف کے وارنٹ تک
ستائیس
دسمبر سنہ دوہزار سات
سابق
وزیر اعظم بینظیر بھٹو پر خودکش حملہ کو لیاقت باغ راولپنڈی کے باہر مقامی وقت کے
مطابق شام پانچ بجکر گیارہ منٹ پر ہوا۔ سرکاری اعداوشمار کے مطابق اس حملے میں
بینظیر بھٹو سمیت چوبیس افراد ہلاک ہوئے جبکہ ستّر زخمی ہوئے۔
اس
واقعہ کا مقدمہ اُسی روز رات آٹھ بجکر بیس منٹ پر مقامی تھانہ سٹی راولپنڈی میں
درج کیا گیا۔
اٹھائیس
دسمبر دو ہزار سات
اس واقعہ کے اگلے روز کو سابق فوجی صدر
پرویز مشرف کے دور حکومت میں وزارت داخلہ میں نیشنل کرائسز مینجنمٹ سیل کے سربراہ
برگیڈئیر ریٹائرڈ جاوید اقبال نے پریس کانفرنس کے دوران انکشاف کیا کہ بینظیر بھٹو
کے قتل میں تحریک طالبان پاکستان کے رہنما بیت اللہ محسود ملوث ہے۔
اکتیس
دسمبر دو ہزار سات
پنجاب
حکومت نے بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کے لیے ایڈیشنل آئی جی چوہدری عبدالمجید
کی سربراہی میں ایک مشترکہ تحققیاتی ٹیم تشکیل دی تھی۔
اُنیس
جنوری سنہ دوہزار آٹھ
اعتزاز
شاہ کو ڈیرہ اسماعیل خان کے تھانے میں درج انسداد دہشت گردی دفعات کے تحت درج کیے
جانے والے مقدمے میں گرفتار کیا گیا۔
اکیس
جنوری
ایک
اور ملزم شیر زمان کو اسی مقدمے میں قبائلی علاقے سے گرفتار کیا گیا۔
سات
فروری سنہ دوہزار آٹھ
راولپنڈی
کے علاقے مصریال روڈ سے اس مقدمے کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے
حسنین گل اور رفاقت حسین کو گرفتار کیا جنہوں نے دوران تفتیش پولیس کو بتایا کہ
بینظیر بھٹو کے قتل کی سازش سات افراد نے کالعدم تحریک طالبان کے رہنما بیت اللہ
محسود کے ساتھ ملکر تیار کی۔
ان میں
صوابی کے نادر خان عرف قاری اسماعیل، وزیرستان کے نصراللہ عرف احمد، عبیدالرحمن
عرف نعمان عرف عثمان، مہمند ایجنسی کے عبداللہ عرف صدام، فیض محمد عرف قسقط، جنوبی
وزیر ستان سے اکرام اللہ اور سعید عرف بلال شامل ہیں۔
انہوں
نے مزید بتایا کہ بینظیر بھٹو پر خودکش حملہ کرنے کے لیے سعید عرف بلال اور اکرام
اللہ کو بھیجا گیا تھا۔پولیس کے مطابق سعید عرف بلال نے بینظیر بھٹو پر خودکش حملہ
کیا تھا جبکہ اکرام اللہ جائے حادثہ سے فراد ہوکر جنوبی وزیرستان پہنچ کیا گیا
تھا۔
آٹھ
فروری کو دو ہزار آٹھ
اُس
وقت کی حکومت نے سکاٹ لینڈ یارڈ کو اس واقعہ کی تحققیقات کرنے کا حکم دیا جنہوں نے
ایک جامع رپورٹ پیش کی تھی۔
تیرہ
فروی سنہ دو ہزار آٹھ
بینظیر
بھٹو کے قتل کے مقدمے میں گرفتار ہونے والے رفاقت حسین اور حسنین گُل نے مقامی
مجسٹریٹ کے سامنے اقبالی بیان ریکارڈ کروائے۔
چودہ
فروری
مخبر کی
اطلاع پر پولیس نے ایک اور ملزم رشید احمد عرف عبدالرشید کو راولپنڈی کے علاقے پیر
ودہائی سے گرفتار کیا گیا۔
پندرہ
فروری
رشید
احمد نے مقامی مجسٹریٹ کے سامنے اپنا اقبالی بیان ریکارڈ کروایا۔ سولہ فوری کو
اعتزاز شاہ کا اقبالی بیان ریکارڈ کیا گیا۔
ستائیس فروری سنہ دوہزار آٹھ
سابق وزیر اعظم کے قتل کے مقدمے کی تحقیقات
کرنے والی پنجاب پولیس کی مشترکہ تحقیاتی ٹیم نے گرفتار ہونے والے پانچ ملزمان کے
خلاف مقدمے کا ریکارڈ انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج کو پیش کردیا جس میں بیت
اللہ محسود سمیت پانچ ملزمان کو اشتہاری قرار دیا گیا۔
تیس مئی سنہ دوہزار آٹھ
عدالت نے ملزم اعتزاز شاہ کو کمسن قرار
دیتے ہوئے اُس کا چالان الگ سے عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔
آٹھ
جولائی
اعتزاز
شاہ کا الگ چالان عدالت میں پیش کردیا گیا۔ بائیس نومبر سنہ دوہزار آٹھ کو ملزمان
پر فرد جُرم عائد کرنے کے بعد استغاثہ کے پانچ گواہوں کے بیانات قلمبند کیے گئے۔
آٹھ
اگست سنہ دو ہزار نو
انسداد
دہشت گردی کی عدالت میں وفاقی حکومت کی طرف سے اس مقدمے کی تفتیش ایف آئی اے کو
سونپنے اور اس کی عدالتی کارروائی تحقیقات مکمل ہونے تک ملتوی کرنے کی درخواست کی
گئی جسے عدالت نے بائیس اگست کو منظور کرتے ہوئے اس مقدمے کی سماعت غیرمعینہ مدت
کے لیے ملتوی کردی۔
نامکمل
چالان
بینظیر
بھٹو کے قتل کے مقدمے پر کوئی عدالتی کارروائی نہیں ہوئی اور اس عرصے کے دوران ایف
آئی اے نے چھ نامکمل چالان عدالت میں پیش کیے جو کہ بالترتیب 25 مئی 2010،گیارہ
جون 2010،تیرہ نومبر 2010،بائس دسمبر 2010 اور 7 فروری 2011 اور 12 جون 2012 کو
پیش کیے گئے۔
تیرہ
نومبر
چالان میں ایف آئی اے نے راولپنڈی پولیس کے
سابق سربراہ ڈی آئی جی سعود عزیز اور ایس پی راول ٹاؤن ایس پی خرم شزاد کو بینظیر
بھٹو کے قتل کے مقدمے میں ملزم نامزد کردیا جبکہ سات فروری کو پیش کیے گیے چالان
میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف کو بھی ملزم نامزد کردیا گیا جنہیں بعدازاں عدالت نے
اشتہاری قرار دے دیا۔
تین
مارچ دوہزار دس
وزارت
خارجہ کے حکام نے اس مقدمے کی تحقیقات کرنے والی ٹیم کو خط لکھا جس میں کہا گیا
تھا کہ اُن کے پاس ایسی کوئی دستاویزات نہیں ہیں جس میں افعانستان کے صدر حامد
کرزئی نے بینظیر بھٹو کی زندگی کو خطرے سے متعلق آگاہ کیا تھا۔
بائیس
دسمبر
لاہور
ہائی کورٹ روالپنڈی بینچ نے ڈی آئی جی سعود عزیز اور ایس پی خرم شہزاد کی ضمانت
قبل ازگرفتاری منسوخ کردی اور ایف آئی اے نے اُنہیں اس مقدمے میں شامل تفتیش
کرلیا۔
پولیس
افسران نے اپنی گرفتاری کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں ضمانت کی درخواست دی جو کہ 5
اپریل 2011 کو منظور کرلی گئی۔
تیس
اگست دو ہزار بارہ
انٹرپول
کی طرف سے وفاقی حکومت کو خط لکھا گیا جس میں ملزم پرویز مشرف کی گرفتاری سے متعلق
معذوری ظاہر کی گئی تھی۔
دس
دسمبر دو ہزار بارہ
حکومت
کی جانب سے پرویز مشرف کی گرفتاری سے متعلق انٹرپول کو ایک مرتبہ پھر خط لکھا گیا
جس میں سابق فوجی صدر کے وارنٹ گرفتاری اور عدالت کی طرف سے اُنہیں بینظیر بھٹو کے
قتل کے مقدمے میں اشتہاری قرار دینے سے متعلق دستاویزات بھی لف کی گئی ہیں۔
(بشکریہ ی بی سی اردو ڈاٹ کام)
No comments:
Post a Comment