Monday, 31 December 2012


She was Rapped and Attempted Suicide
But
She made The India Wakeful.

She was a student
She was 23
Her fault some people say because she boarded the wrong bus
And oh yeah
SHE WAS A GIRL
Six men raped her one by one and then used an iron rod to tear her vagina-
Small intestine and large intestine came out
They left her to die on the road
Naked!
Wounded!
Exposed!
Devastated
What’s more is that no one even turned to look at her
No one even bothered to throw a shawl on the ill-clad
ill-fated girl
She can never live a normal married life again
She Went into coma five times since 16th December
She was unconscious
Critical and hasn't been able to stop crying
But don’t worry
She wasn't your sister
She wasn't your daughter
But she could be. The brutality has to stop right here guys
These people deserve capital punishment for their cruel,
Perverted act
She died yesterday saturday 29th
December 2012
Rest in Peace♥ and I pray that her killers get the WORST punishment possible
This doesn't only happen in India..
But in every country around the world..
Is this how we treat our women?
It Makes me ashamed to even live on this planet today

If her death Touches u and you are against RAPE
"Write RIP"
If u Support RAPE
"IGNORE"

======================
COMMENT,SHARE & TAG @ least 5 of your best FRIENDS!

More at: Pakistani Police
Site: www.value9.com
She was a student
She was 23
Her fault some people say because she boarded the wrong bus
And oh yeah
SHE WAS A GIRL
Six men raped her one by one and then used an iron rod to tear her vagina-
Small intestine and large intestine came out
They left her to die on the road
Naked!
Wounded!
Exposed!
Devastated
What’s more is that no one even turned to look at her
No one even bothered to throw a shawl on the ill-clad
ill-fated girl
She can never live a normal married life again
She Went into coma five times since 16th December
She was unconscious
Critical and hasn't been able to stop crying
But don’t worry
She wasn't your sister
She wasn't your daughter
But she could be. The brutality has to stop right here guys
These people deserve capital punishment for their cruel,
Perverted act
She died yesterday saturday 29th
December 2012
Rest in Peace
and I pray that her killers get the WORST punishment possible
This doesn't only happen in India..
But in every country around the world..
Is this how we treat our women?
It Makes me ashamed to even live on this planet today

If her death Touches u and you are against RAPE
"Write RIP"
If u Support RAPE
"IGNORE"
(A “Writing” from FaceBook)


contact us:
www.twitter.com/MediaMirrorX 
www.facebook.com/MediaMirrorx 
and send us your Articles, Columns Stories at our e-mail, We will publish here, and on faceBook and also on Twitter.

mediamirrorx@gmail.com


قومِ لوط کے شہرِ سدوم سے شہرِ روشن خیالی واشنگٹن اور پنٹاگون تک

حضرت لوط علیہ السلام کا زمانہ عین وہی ہے جو ابراہیم علیہ السلام کا تھا۔ اللہ سبحان تعالیٰ انہیں حضرت ابراہیم کےاس نواحی علاقے میں پیغمبر بنا کر بھیجا گیا تھا جس کے باسی آج کے تعلیم یافتہ مغرب و امریکہ کے روشن خیال امن گردوں کی طرح اغلام جیسے پلید فعل کی عادتِ بد میں مبتلا تھے۔ جب اللہ کے پیغمبر نے ان لوگوں کو اس بد فعلی سے روکا اورانہیں اللہ کی طرف سے دی گئی تنبیہ پہنچائی تو انہوں نے لوط علیہ السلام کو اللہ کا نبی ماننے اور نصیحت قبول کرنے سے صاف انکارکردیا اورغیرفطری فعل سے تسکینِ ہوس کا شغل جاری رکھا۔ بالآخر اللہ کی طرف سےان نافرمانوں پر شدیدعذاب نازل ہوا اور یوں وہ لوگ ایک عبرت انگیزحادثے کی بناء پرروئے زمین سےہمیشہ ہمیشہ کیلئے نیست ونابود ہوگئے۔ قوم لوط کےمسکن اس شہرکوعیسائیوں کی ہی مقدس کتاب عہد نامہء عتیق قدیم ( اولڈ ٹسٹامنٹ ) میں “سدوم” یعنی گناہ گاروں یا بدفعلیاں کرنے والوں کے شہر کا نام دیا گیا ہے۔ مسلمان کی حیثیت سے ہمارا کامل ایمان  ہے کہ قرآن حکیم اللہ کا کلام ہے اور حق الیقین یہ کہ اس میں جو بھی لکھا ہے وہ عین سچ ہے۔ لہذا اردن اور اسرائیل کی سرحد پر بحیرہ مردار کے قریب و جوار میں واقع یہ فنا شدہ شہر یقیناً اسی انداز میں تباہ ہوا ہوا ہو گا جیسا کہ کتاب الہی میں بتایا گیا ہے
یہ کسی جاہل اور بنیاد پرست  مسلم یا دہشت گرد مولوی کا کہنا نہیں بلکہ خود خالق کائنات فرماتا ہے کہ
قوم لوط نے (ان کی) تنبیہ کو جھٹلایا۔ ہم نے پتھراؤ کرنے والی ہوا ان پر بھیج دی (جس نے انہیں تباہ کردیا)، صرف لوط علیہ السلام کے گھر والے اس سے محفوظ رہے، جنہیں ہم نے اپنے فضل سے صبح ہونے سے قبل (وہاں سے ) بچا کر نکال لیا۔ ہم ہر اس شخص کو جز ا دیتے ہیں، جو شکر گزار ہوتا ہے۔ اور لوط نے اپنی قوم کے لوگوں کو ہماری (جانب سے بھیجی گئی) سزا سے خبردار کیا لیکن وہ ساری تنبیہات پر شک کرتے اور انہیں نظر انداز کرتے رہے۔‘‘
(
سورہ القمر۔آیات 33 تا 36 )

غلاظت اور بدفعلی میں مبتلا قوم لوط پر اللہ تعالی نے مختلف قسم کےسخت ترین عذاب نازل کئے،رات کے آخری حصہ میں ایک فرشتے نے ہیبت ناک چیخ ماری جس نے انہیں زیر و زبر کردیا، چالیس لاکھ پر مشتمل آبادی کو آسمان تک لیجا کر الٹ دیا گیا اوران پر پتھروں کی لگاتار بارش برسا کر صفحہ ہستی سے ان کا نام و نشان مٹا دیا۔ آج مسٹر کلین مغرب اور ماڈرن فرعون امریکہ کا روشن خیال معاشرہ اسی فعل بد کو اپنی زندگی کا آئینی اور قانونی حصہ بنا کر عذاب الہی کو کھلی دعوت دے رہا ہے

اس حوالے سے خبریں ہیں کہ صدر اوبامہ کی منظوری کے بعد دو امریکی ریاستوں میری لینڈ اور مینی میں ہم جنس پرست شادیوں کو قانونی حیثیت دے دی گئی ہے، میری لینڈ میں 52 فیصد ووٹروں نے ہم جنس پرست شادیوں کی حمایت جبکہ 48 نے مخالفت کی۔ ریاست مینی میں 54 فیصد نے حمایت اور 46 فیصد نے مخالفت کی۔ یاد رہے کہ میری لینڈ، کولراڈو اور واشنگٹن میں عوام کی اکثریت نےمیری جونا یعنی چرس کو کھلےعام استعمال کرنے کے حق میں بھی ووٹ دیا ہے جبکہ امریکہ میں اس کے کھلےعام استعمال پرپابندی عائد ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ملالہ جی کےآئیڈیل انکل اوبامہ شہرِ پینٹاگون واشنگٹن میں بھی ان ہم جنس پرستی کے اقدام کی منظوری دیتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں،جہاں 52 فیصد نےحمایت اور 48 فیصد مخالفت میں ووٹ پڑے ہیں۔ خبریں یہ بھی کہ پینٹاگون کے متعدد فوجی جرنیل بھی ہم جنس پرستی اورجنسی سکینڈلوں میں ملوث ہیں۔ مسلمانوں کو دین سے دور کرنےکی دجالی کوششوں میں سرگرم امریکی قرآن کے منکر سہی اپنےعیسائی مورخین ہی کی لکھی تاریخ عالم پڑھ لیں تومعلوم ہو جائے کہ اہلِ پومپیائی کا انجام بھی کچھ ایسا ہی ہوا ۔
مندرجہ ذیل آیات میں قرآن حکیم کھل اعلان کر رہا ہے کہ اللہ کے قوانین میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔
’’یہ لوگ کڑی کڑی قسمیں کھا کر کہا کرتے تھے کہ اگر کوئی خبردار کرنے والا ان کے ہاں آگیا ہوتا تو یہ دنیا کی ہر دوسری قوم سے بڑھ کر راست رو ہوتے۔ مگر جب خبردار کرنے والا ان کے ہاں آگیا تو اس کی آمد نے ان کے اندر حق سے فرار کے سوا کسی چیز میں اضافہ نہ کیا۔ یہ زمین میں اور زیادہ سرکشی کرنے لگے اور بری بری چالیں چلنے لگے ، حالانکہ بری چالیں اپنے چلنے والوں ہی کو لے بیٹھتی ہیں۔ اب کیا یہ لوگ اس کا انتظار کر رہے ہیں کہ پچھلی قوموں کے ساتھ اللہ کا جو طریقہ رہا ہے وہی ان کے ساتھ بھی برتا جائے؟ یہی بات ہے کہ تم اللہ کے طریقے میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے اورتم کبھی نہ دیکھو گے کہ اللہ کی سنت کو اس کے مقرر راستے سے کوئی طاقت پھیر سکتی ہے‘‘۔
(
سورہ الفاطر۔ آیات 42 تا 43 )

اللہ کے طریق اور قانون میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ اس کے جو قوانین قوم لوط اور فرعون و نمرود کیلئے تھے وہی قوم پومپیائی کیلئے تھے اور وہی آج امریکی، مغربی اور ایشیائی مخلوق یا ہمارے کیلئے بھی ہیں ہر وہ شخص جو اس مقتدر اعلی کے متعین کردہ قوانین کی خلاف ورزی کرے گا اس کے نظام کے خلاف متحرک ہوگا اسے انہی قوانین الہٰی کے تحت سزا ملے گی۔ سلطنت روم کی تنزلی کی علامت، پومپیائی کے لوگ بھی قوم لوط کی مانند جنسی بے راہ روی، بدفعلی، بدکاری اورغیر فطری فعل کی عادتوں میں مبتلا تھے۔ ان کا انجام بھی بالکل وہی ہواجو قوم لوط کا ہوا تھا۔ یاد رہے کہ پومپیائی کی تباہی، ویسو ویئس آتش فشاں کے پھٹنے سے ہوئی۔ یہ آتش فشاں، اٹلی کا یہ آتش فشاں پچھلے دو ہزار سال سے خاموش ہے۔اس کے نام’’ویسوویئس‘‘ کا مطلب ہے’’ تنبیہ کا پہاڑ‘‘ اوریہ نام بھی بلاوجہ نہیں رکھا گیا ہے۔ جیسی آفت نے گمراہ سدوم کو نیست و نابود کیا تھا بالکل ویسی ہی آفت نے پومپیائی کو بھی تباہ وبرباد کیا۔ ویسو ویئس پہاڑ کے ایک طرف نیلپس ہے تو دوسری طرف مشرق میں پومپیائی واقع ہے۔ یہی پہاڑ آج سے دوہزار سال پہلےاچانک پھٹ پڑا، ایک بڑی مقدار میں لاوا اور گرم راکھ، اس سے ابل پڑے اور پومپیائی شہر کے باسی (لاوے اور راکھ میں) گھر کر رہ گئے۔ یہ بھیانک حادثہ اتنی تیزی سے رونما ہوا کہ شہر کی  ہرایک  شےاور ایک ایک باسی، روز مرہ معمولات سرانجام دیتے ہوئے اس کا شکار ہوگیا اور یہ لوگ آج تک اسی حالت میں پڑے ہیں جیسے کہ وہ دوہزار سال پہلےتھے۔ گویا وقت ان کے لئے تھم گیا ہو۔ پومپیائی کی اس انداز میں قدرتی آفت کے ذریعے تباہی یقیناً بےمقصد نہیں تھی۔ تاریخی ریکارڈ ظاہر کرتاہے کہ یہ شہر بدکاری اور بدفعلی جیسی برائیوں کا عین مرکز تھا۔ یہ شہر بدکاری کے ضمن میں خصوصی شہرت رکھتا تھا اور یہ چیز اس شہر میں اتنی زیادہ تھی کہ وہاں قحبہ خانوں کی درست تعداد تک معلوم نہیں ہوسکی ۔ بے ہودگی اور بے شرمی تمام حدوں کو پارکرچکی تھیں پومپیائی میں قحبہ خانوں کے دروازوں پرمردانہ اعضائے تناسل کی اصل جسامت کے پتھر کے بنے ہوئے نمونےلٹکائے جاتے تھے۔ یہاں پر متھرائی عقیدے کے مطابق اختلاط بھی کھلےعام کیا جاتا تھا۔ مگر ویسوویئس کے لاوے نے پورے شہر کو صرف ایک لحظے میں صفحۂ ہستی سے مٹادیا۔ اس واقعے کا سب سے عبرتناک پہلو یہ ہے کہ اتنے بھیانک آتش فشانی ابال کے باوجود شہر کا ایک فرد بھی بچ کر نہیں بھاگ سکا۔ یوں لگتا ہے جیسے انہیں یہ آفت آنے کا احساس بھی نہیں ہوا ہو گا یا پھر وہ اس آفت کے نزول پر مسحور تھے۔ کھانا کھاتے ہوئے ایک گھرانہ چشم زدن میں پتھرا گیا۔ متعدد جوڑے بحالت اختلاط پتھرا گئے۔ ایک اور سب سے توجہ طلب چیز یہ بھی ہے کہ ان میں سے کئی جوڑے، ہم جنس پرستوں کے ہیں جنہیں اسی حالت میں اللہ کے عذاب نے آن گھیرا۔ گرم راکھ اور لاوے نے انہیں کوئی مہلت دیئےبغیر پتھر کے بتوں میں تبدیل کردیا۔ پومپیائی سے برآمد ہونے والی بعض پتھریلی لاشوں کے چہروں پر بھی خوف کا کوئی نشان نہیں ہے۔ بیشتر لاشوں کے چہروں پر حیرت، سراسیمگی یا پریشانی جیسے تاثرات عموماً پائے گئے ہیں۔

اس آفت اورآفت رسیدگی کا ایک ناقابل فہم پہلوبھی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہزاروں لوگ کچھ بھی دیکھے اور سنے بغیر موت کا نوالہ بننے کا انتظار کرتے رہے ہوں؟یہی پہلو ہمیں بتاتا ہے کہ پومپیائی لوگ بھی بالکل ویسے ہی تباہ کن عوامل کا شکار ہوئے جن کے بارے میں قرآن نے وضاحت فرمائی ہے، کیونکہ قرآن جب کبھی ایسے واقعات کا حوالہ دیتاہے تو’’اچانک تباہی‘‘ کا صرف ایک اشارہ دیتا ہے۔ مثال کے طور پر سورہ یاسین میں بیان کردہ ’’شہر کے باسی‘‘ ایک لمحے میں تمام کے تمام مرگئے۔ یہ کیفیت سورہ یاسین کی 29 ویں آیت میں کچھ اس طرح بتائی گئی ہے

’’بس ایک دھماکہ ہوا اور یکایک وہ سب بجھ کر ( اور خاموش ہوکر ) رہ گئے‘‘۔


سورہ القمر کی 31 ویں آیت میں  قوم ثمود کی تباہی کا تذکرہ کرتے ہوئے ’’اچانک تباہی‘‘ کا حوالہ دیا گیا ہے۔
’’ہم نے ان پر بس ایک ہی دھماکا چھوڑا اور وہ باڑے والے کی روندی ہوئی باڑ کی طرح بھس ہوکر رہ گئے۔‘‘

پومپیائی کے لوگوں کی موت بھی ایسی ہی سرعت رفتاری کے ساتھ ہوئی جس کا تذکرہ مذکورہ بالا آیات میں کیا گیا ہے۔ لیکن تعجب ہے کہ اس کے باوجود، جہاں کبھی پومپیائی تھا، اس کے آس پاس کےلوگوں نے اب تک کوئی خاص عبرت نہیں پکڑی ہے۔ نیپلس کے اضلاع، جہاں عیاشی اوراوباشی کی اجارہ داری ہے، پومپیائی والوں کی بے راہروی اور شہوت پرستی سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ کیپری کا جزیرہ ہم جنس پرستوں اور بے لباسوں کا گڑھ ہے۔ سیاحوں کے لئے نشر ہونے والے اشتہارات میں کیپری کو’’ ہم جنس پرستوں کی جنت‘‘ کے طور پر بھی پیش کیا جاتا ہے۔ معاملہ صرف کیپری جنریرے یا اٹلی تک ہی محدودنہیں، بلکہ قریب قریب تمام مغربی دنیا ، مشرق بعید اور سیکولر بھارت کی یہی صورتحال ہوتی جارہی ہے۔ اسی طرح اخلاقی زوال پذیری ہروقت روبہ عمل ہے اورآج کے لوگ، ماضی کی تباہ شدہ، معدوم ومعتوب تہذیبوں کے لوگوں سےعبرت پکڑنے کے لئے تیار نظر نہیں آتے۔ اور یہی امریکہ اور اس کے حواری مغرب کے تاریک الفطرت صاف ستھرے لوگوں کی عین “روشن خیالی” ہے۔ جو بہت جلد انہیں قوم لوط اور پومپیائی کی طرح لے ڈوبے گی۔ بحرحال ملالہ جی کے چہیتے انکل اوبامہ کے دیس کے صاف ستھرے لوگوں اور پاکستانی میڈیا کے رول ماڈل پڑھے لکھے مغربی معاشرے، تعلیم یافتہ امن گردوں کے ہر شہر ِ پلیدستان و غلاظت آباد کو ذلالت کی انتہا کی سمت مادر پدرآزادی کا سفرمبارک رہے۔ تاریک خیال مسلم حلقوں کیلئے یہ بات کسی تعجب کا باعث نہیں تھی کہ جون 2012 میں امریکی وزیردفاع لیون پینٹا نےامریکی فوج میں شامل ہم جنس پرست خواتین وحضرات کوعزت و توقیر سےنوازنے کیلیےایک محبت بھرا ویڈیو پیغام جاری کیا تھا۔ جس کےبعدامریکی پنٹاگان کی تاریخ میں پہلی بار، جون کو ہم جنس پرستوں کے ماہِ  فخر کے طور پرمنایا گیا تھا۔ یہ سب حالات بتا رہے ہیں کہ قوم لوط کے شہر ِ سدوم کے بھیانک انجام اور پومپیائی کی تباہی کی داستان عبرت کی طرح امریکہ کے انجام ِ بد کا باب کھلنے میں اب زیادہ دیرباقی نہیں۔ ممکن ہے کہ اب امریکہ سے کچھ ایسی خبریں بھی موصول ہوا کریں کہ کسی حسینہ کے منگیتر نے گھر سےبھاگ کراس کے سابقہ بوائے فرینڈ سےشادی کرلی ہے۔ ہم جنس پرستوں کی شادیوں کے قانون کی منظوری دینے سے پہلے صدراوبامہ کو بھی سوچنا چاہیئے تھا کہ کچھ بعید نہیں کہ دنیا میں  کبھی یہ خبر بھی زیرِ گردش ہوکہ امریکی خاتون اول نےاوبامہ جی کی گرل فرینڈ سے شادی رچا لی۔ ابھی تازہ ترین یہ ہےکہ روس کے ٹکرے ہونےجیسی کہانی پے درپے طوفانوں کی زدمیں آئےامریکہ میں بھی دہرائےجانے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ خبریں ہیں کہ اوبامہ کی جیت کے ساتھ ہی بیس امریکی ریاستوں نے ( ان میں امریکی جمہوریہ پاکستان کا نام شامل نہیں ہے ) علیحدگی کا مطالبہ کر دیا ہے ۔۔۔۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا




Sunday, 30 December 2012

مرحبا مر حبا قادری جی مرحبا
  تحریر ریاض خان ہزاروی
شیخ الاِسلام(واہ) جناب طاہرالقادری صاحب نےابتدا میں ا۔مامت کےلئے اپنی اسنادبڑے میاں کی خدمت میں پیش کرتےھُوئےمُلازمت کی درخواست کی توبڑے میاں نےکاغذات کواُلٹ پلٹ کردیکھنےکےبعداِتفاق مسجد کی اِمامت اِن کےحوالے کردی مگر اس دوران جس وقت کہیں عُلماء سےخطاب کرناھوتاتو چھوٹُو اور پیّاں دونوں ھی قادری صاحب کی خدمات حاصل کیاکرتےتھےجس سے ایک طرف انہوں نے نہ صرف مدرسّہ کےنام پراچھّی خاصی زمین حاصل کرلی بلکہ ساتھ ھی خودبھی آتشِ سیاست میں کُودپڑے جِس پربڑے میاں نے بیک جُنبشِ قلم انہیں مُلازمت سے برخواست کردیا،یوں قادری صاحب فُل ٹائم سیاست دان بن گئے ایک بارتوان کے90%  اُمیدواروں کی ضمانتیں بھی ضبط ھوگئی تھیں تاھم خود مک مکہ کےزریعے قومی اسمبلی کی ایک نشست پریہ کامیاب ھوگئےتھے اورپھر بینظیربھُٹو کےساتھ ان کےدیرینہ تعلقات نےاپنارنگ دِکھایامگرجب جسٹس قیوم نےشہبازشریف کےکہنےپربےنظیربھُٹو اورزرداری کےخِلاف اپنافیصلہ سُنایاتویہ حضرت مُتفقہ لیڈربننےکےشوق میں بےنظیربُھٹو کےخلاف سُنائےجانےوالے فیصلہ کوحق بجانِب کہہ بیٹھےاورتنقیدی تقریربھی شُروع کردی جب پیچھےمُڑکردیکھاتوکوئی بھی نہیں تھا چُونکہ ساتھ ھی  بےنظیربھُٹو پرتنقیدبھی کربیٹھےتھے جس پریہ حشر توھونا ھی تھامذیدبرآں اپنےآپ کواکیلاپاکر پارلیمنٹ کی نشست سےمُستعفی ھوکرموجودہ نظام کوگالیاں دیتےھُوئےیورپ سدھارتے ھُوئےکہہ گئے
؏تُجھے بھی اوبُت کافر کسی سےپیارھوجائے
مرامطلب ھےکہ تُجھ پربھی خُدا کی مارھوجائے
تری  بیمار آنکھوں کا  کوئی بیمار ھو  جائے
تَو اُس کوموت مُشکل زندگی دُشوار ھوجائے

 یورپ راس آیاتواپنےنام کےساتھ ڈاکٹرکالاحقہ بھی لگاگئےجب پُوچھاجاتاھےکہ حضرت یہ ڈاکٹریٹ کہاں سےحاصل کی ھے توکُچھ شرماتےاورلجاتےھُوئےموضوع تبدیل کردیتےھیں مگران کے مُرید مُختلف اوقات میں مُختلف جوابات سےضرورنوازتے رہتےہیں۔تاھم لندن میں انہوں نےاپنےفرزندارجمندکی خُوب تربیت کی،ایک باراُن کے فرزند حُسین محی الدین قادری کی تقریر سُننے کاموقع مِلاتویوں لگاکہ جیسےقادری صاحب تشریف رنجہ ھوں اورخود تقریرفرمارھے ھوں وھی طرزتخاطُب،تقریرکےدوران اُتارچڑھاؤ کاوھی انداز،اُنگلی کااُسی انداز میں لہرانا،انگوٹھے کےساتھ دُوسری اُنگلی کومِلاکرناک کوایک مخصوص انداز میں دباتے ھُوئے صاف کرتے کےبعدھاتھ کواُوپرکی جانب لےجانا اورپھر کبڑے سے دانتوں اورچہرے کوصاف کرناوغیرہ شامل ھیں اورانہی صلاحیتوں کی بِناپرطاہرالقادری صاحب کی جانشینی کےحقدار بھی یہی پُوت ٹھہرتےھیں اوراُوپرسےلباسی پہناوابھی ھوبہو قادری صاخب جیساتھاجس پرنطرپڑتے ھی کسی کاایک شعر یاد آگیا

؏ابھی تک شرم سےھُوں پانی پانی
بدست  نرس“ نہلایا گیا  ھُوں
نئی اچکن ھےفِٹ اتنی کہ جیسے
میں اس اچکن میں سلوایاگیاھُوں

 مگرواہ ری قسمت کہ چھوٹےقادری کی نظرمُریدنیوں میں سے کسی پُھول کی کلی پرجاپڑی اور ابّا حضُور کےسامنےاُن کاتزکرہ کرتے ھُوئےکہاکہ ابّاحُضور اس مرتبہ انکارمت کرنا کیونکہ یہ بیوی ھی نہیں بلکہ میرے لئے برطانوی شہریت کی  سیڑھی بھی ھوگی،اور ویسے بھی اب ٹٹوے کوٹٹوانی کی ضرُورت تھی
؏اُس کا رشتہ نہ ھونےکا باعث اُس کا ابّا تھا
سب حیران تھےاس نےایساابّاکہاں سے لبھاتھا
 اُن کے ابّاحُضوراپنےمُرید کےھاں پُہنچےاور یوں رشتہ بخیروخُوبی طےپایا مگر لڑکی نکھٹُو قادری کی ھڈے حرامی برداشت نہ کرسکیں اورانہیں بہ زورپولیس گھرسےنکلوادیا، لیکن ابّا ھوتوایسا کہ برطانوی حکُومت نے اپنےلاڈلےطاھرالقادری صاحب کوبارکنگ سٹیشن لندن کے بالمقابل اُسی جگہ پرمُفت گھررہائش کے لئےمرحمت فرمایااور قادری صاحب نےبھی اپنےآقا کومایُوس نہیں کیااورمُسلمانوں کےلئےکرسمس منانے کوجائزقراردیتےھُوئے عیسائی پادری کی مَعِّیت میں بڑی شان کےساتھ کرسمس کیک بھی کاٹااوریوں درویش ڈانس اورکرسمس گیت کےساتھ تقریب احتتام کوپُہنچی۔جیسا کہ امریکی اتحادی دھشت گردی کےنام پرلاکھوں ڈالرز لُٹارھےھیں اوراُنہیں ڈالروں کی تقسیم کے لئےطاہرالقادری اورالطاف حُسین جیسےلوگوں کی ضرُوت ھوتی ھے اوریہ بھی ایسی خدمات کےلئےہمہ وقت تیاررھتےھیں
؏ڈالروں کے چکرمیں زندگی گُزاری ھے
کیسہ بھرلیالیکن مَن ابھی بھکاری ھے
 سوچنے کامقام ھےکہ ڈرونزحملوں پریہ مُہرےٹس سےمَس نہیں ھوتے اور نہ ھی مُسلانوں کے لئےاپناکِردارادا کرتےھیں ،ساتھ ھی عراق،لیبیا اورفلسطین کی اینٹ سےاینٹ بجانے پران کے لب پرآتی  ھے اورنہ ھی مصر اورشام کےحالات پرلب کشائی کی جُراءَت کرسکتے ھیں اور یہ بھی اُنہی تماشائیوں میں شامل ھیں جو مجرادیکھنے کےلئے جایاکرتےتھے اجمال اس صُورت کی کُچھ یوں ھے کہ جو سلوک امریکہ ھمارے سیاستدانوں کے ساتھ جاری رکھے ھُوئے ھے  وھی  سلوک ھمارے سیاستدان اپنے کارکُنان کے ساتھ بھی روا رکھے ھُوئے ھیں یعنی امریکی وعدے کے مُطابِق  ھمارا ھر سیاستدان اگر ممُستقبل کا صدر اور وزیراعظم ھے تو ان کی پارٹی کا ھر کارکُن اگررُکنِ اسمبلی نھیں تو کم ازکم سینٹر، کونسلر،ناظم اور چیئرمین وغیرہ ضرور ھے یعنی جس طرح ایک طوائف  نے ھر عاشق کے ھاتھ میں تار کا ٹکڑا تھماتےھُوے کہا تھا کہ اس ٹُکڑے کا کمال فلاں مجرے میں دیکھنا اور جب مجرے میں دلال کہتااوئےظالم کی بچّی ٹیدی بن جاتو وہ   اُچھلتے کُودتے ھُوئے کہتی اوئے تار والے میں تیری آں تو سبھی خوشی سے اُچھل پڑتے کیونکہ سب  تنہائی میں ایک ایک تار وصول کر چُکے تھے اور اُن میں سے ھر تار والا یہی سمجھ رھا تھا کہ تار تو صرف اُسی کے پاس ھے، اس طرح امریکہ اور ھمارے سیاستدان بھی اُس طوائف سے کسی صُورت میں بھی کم نھیں بلکہ ان میں اُس طوائف کی رُوح حلُول کر گئی ھے جو دلاسہ فارمولے کا استعمال کرنا بخوبی جانتی تھیں۔اورویسے بھی جو شخص ڈاکٹر ذاکر نائیک کے برطانیہ میں داخلے کوبندکرنےکےلئے برطانوی حُکام کےساتھ سازبازکرتے ھُوئےکارکنوں 
کونمبر دس ڈاؤننگ سٹریٹ تک لےجانااپنافرض منصبی سمجھتاھو تاکہ وہ ڈیڑھ سوکےقریب عیسائیوں اورہِندوؤں  کو کلِمہّ نہ پڑھادے ،جوشخص  دھشت گردی کو بُنیاد بناکرجلسے ،جُلوس،شمعیں جلانے ،مُزمتی بیانات جاری کرنےاورکانفرنسیں مُنعقدکرنےکااہتمام محض پونڈوں کی وصُولی کےلئے             کرتاھو اورجوببانگِ دُھل دھشت ُگردی کے نام پرمُسلمانوں کوکُچلنے کی منصُوبہ بندی کااظہارکررھاھو اُس پر ھم کیسےاعتمادکریں کہ یہ ھماری قوم کا اصّلی تےوڈامسیحا ھے۔
؏میں کیسے مانُوں کہ وہ دُورجاکےروئے

www.facebook.com/MediaMirrorX 
www.twitter.com/MediaMirrorX
mediamirrorx@gmail.com

Rana Ehtisham Rabbani's Little Talk

www.fb.com/MediaMirrorX
twitter.com/MediaMirrorX
mediamirrorx@gmail.com

Saturday, 29 December 2012


غفور صاحب کون تھے؟
خان عبدالولی خان، مولانا مفتی محمود، غوث بخش بزنجو، عبدالصمد اچکزئی، جی ایم سید، شاہ احمد نورانی، نوابزادہ نصراللہ خان، پروفیسر غفور احمد۔ بظاہر ان ناموں میں کوئی نظریاتی قدرِ مشترک نہیں۔ نسلی و ثقافتی پس منظر بھی مشترک نہیں۔مگر یہ سب اس سیاسی نسل کے لوگ ہیں جو بنی اسرائیل کے بارہویں قبیلے کی طرح کہیں کھو گئی۔
یہ دلائل کے اسلحے سے لڑنے والے بامروت، وضع دار، حریفوں کی پڑھی لکھی، گرم و سرد کی آزمائش سے گذری کندن پیڑھی تھی۔ سیاست ان کا پیشہ نہیں تھا اوڑھنا بچھونا تھا۔آپ کا نظریہ بھلے کچھ بھی ہو مگر ان لوگوں سے مل کر آپ کچھ نہ کچھ سیکھ کر اٹھتے تھے، کچھ دے کر نہیں لے کر اٹھتے تھے۔ یہ سب کے سب ہر شخص کے لیے قابلِ رسائی تھے۔
ان کے آگے پیچھے نہ کلاشنکوف بردار ڈشکرے تھے، نہ ہی ہٹو بچو کی صدائیں، نہ یہ آنے والے کو طویل انتظار سے گذار کر ’دیکھو میں کتنا اہم اور مصروف آدمی ہوں‘ ثابت کرتے تھے اور نہ ہی ’برخوردار تمہیں کیا پتا میں تمھیں بتاتا ہوں‘ کے مرض میں مبتلا تھے۔
مجھے واقعی یاد نہیں کہ غفور صاحب سے پہلی بار کس تقریب میں ملا تھا۔ مگر یہ یاد ہے کہ جب ایک دفعہ ان کے گھر فون کیا تو پہلی حیرت یہ ہوئی کہ کسی سیکرٹری کے بجائے انہوں نے فون اٹھایا۔ دوسری حیرت یہ ہوئی کہ فوراً اسی روز شام کا وقت دے دیا۔تیسری حیرت یہ ہوئی کہ دروازے پر تالہ تو کجا مین گیٹ کے دونوں دروازے بھی چوپٹ تھے۔
چوتھی حیرت یہ ہوئی کہ گھنٹی کا بٹن دباتے ہی کوئی اور گیٹ پر نہیں آیا خود غفور صاحب باہر نکل آئے۔ پانچویں حیرت یہ ہوئی کہ اپنے بیڈ روم میں ایک معمولی سی مسہری پر بٹھا دیا اور خود اندر چلے گئے۔ بیڈ روم میں فرنیچر کے نام پر بید کی دو آرام کرسیاں، ایک سیدھی سی میز، ایک رائٹنگ ٹیبل، چند کتابیں اور ایک جائے نماز۔۔۔
چھٹی حیرت یہ ہوئی کہ نائبِ امیرِ جماعتِ اسلامی، دو دفعہ کا منتخب رکنِ قومی اسمبلی، ایک دفعہ کا منتخب سینیٹر، انیس سو تہتر کی آئین ساز کمیٹی کا رکن، پی این اے اور آئی جے آئی کا سابق سیکریٹری جنرل، ستتر کے انتخابات دوبارہ کروانے کے لیے ذوالفقار علی بھٹو کی ٹیم سے مذاکرات کرنے والی اپوزیشن کمیٹی کا سربراہ، سابق وفاقی وزیرِ صنعت، چارٹرڈ اینڈ انڈسٹریل اکاؤنٹینسی کا استاد، پانچ کتابوں کا مصنف ہاتھ میں چائے کے ٹرے اور بسکٹ کی رکابی پکڑے دوسرے کمرے سے واپس آتا ہے، میز پر رکھتا ہے اور مجھ جیسے چھٹ بھئیے صحافی سے کہتا ہے کہ معاف کیجئے گا اہلیہ کی طبیعت ناساز ہے لہٰذا صرف چائے ہی میسر ہے۔۔۔
اور پھر میں ہر تیسرے چوتھے مہینے غفور صاحب کے پاس جانے لگا۔ ضعیفی کے سبب ان کی نقل و حرکت پہلے جیسی نہیں رہی تھی لہٰذا میں نے ان کی جبری فراغت سے خوب فائدہ اٹھایا۔ ان کے پاس بیٹھ کے بہت سکون ملتا تھا۔ وہ پاکستانی سیاست کے اندرون و بیرون کے ایک اہم شاہد تھے مگر مجھ جیسوں کی بچگانہ بقراطیاں بھی بات کاٹے بغیر سنتے رہتے۔
کسی بھی طرح کے سوال کا جواب دیتے وقت نہ غفور صاحب کو ادھر ادھر دیکھ کر لفظوں کو مشینی انداز سے ناپنے تولنے کی عادت تھی، نہ ہی وہ بات کو اہم اور پراسرار ثابت کرنے کے لیے سرگوشی کی اداکاری کر پاتے تھے، نہ ہی ’نو کمنٹس‘ کہہ کے بات بدلنا جانتے تھے۔
مجھے نہیں معلوم کہ جماعتِ اسلامی کی موجودہ قیادت کا جنرل ضیا کا ساتھ دینے کے بارے میں آج کیا موقف ہے۔ مگر غفور صاحب تسلیم کرتے تھے کہ پی این اے اور بھٹو صاحب میں معاہدہ طے پا جانے کے بعد فوج کی مداخلت بلاجواز، غیر ضروری اور سمجھ سے بالا تر تھی۔ وہ یہ بھی اعتراف کرتے تھے کہ جنرل ضیا کا ساتھ دینا جماعتِ کی ناسمجھی تھی۔ جماعت نےضیا اور اس کے ارادوں کو سمجھنے میں غلطی کی۔ مگر جماعت چونکہ امارت کے ڈسپلن کےتابع ہوتی ہے، لہٰذا اندرونِ خانہ تو بے چینی تھی لیکن امیر ( میاں طفیل محمد ) نے چونکہ ایک فیصلہ کر لیا تھا لہٰذا اس فیصلے کے ساتھ چلنا تنظیمی ڈسپلن کی مجبوری تھی۔
ایک ملاقات میں ان سے میں نے پوچھا کہ ذوالفقار علی بھٹو اتنے برس بعد کیسا لگتا ہے۔ ان کا جواب تھا کہ بھٹو مزاجاً فاشسٹ، خوشامد پسند اور منتقم مزاج تھا لیکن ذہین اور قوم پرست تھا اور اس نے پاکستان کے لیے بین الاقوامی سطح پر بہت کچھ کیا۔ ہر انسان میں اچھائیاں برائیاں ہوتی ہیں مگر بھٹو نے کوئی مالی کرپشن نہیں کی نہ ہی ملک کو لوٹا۔یہ رجحان تو بعد میں شروع ہوا۔
پیشہ ورانہ ضروریات کے تحت جماعتِ اسلامی اور اس کے نظریات کے شدید مخالفین سے بھی میری ملاقاتیں ہوتی تھیں اور ہوتی ہیں۔ بہت سے جماعت کی قیادت کا نام لے کر بھی اچھی بری گفتگو کرتے ہیں۔ لیکن اب تک کوئی ایک سیاستداں یا کارکن ایسا نہیں ٹکرایا جس نے غفور صاحب کی برائی یا غیبت کی ہو۔
شاید غفور صاحب ان گنے چنے سیاستدانوں کی صف کے آخری آدمی تھے جن کی اصول پسندی، آگہی، اخلاص، سادگی اور عوامیت شک و شبہے سے بالا تھی۔ موجود لوگوں میں کیا ایسا کوئی ہے ؟ شاید سردار شیر باز مزاری اور اصغر خان۔۔۔
چراغ بجھتے چلے جارہے ہیں سلسلہ وار
میں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوئے
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام

mediamirrorx@gmail.com

Friday, 28 December 2012


2012: Personalities Who left the World

Medhi Hassan (Ghazal Singer Pakistani)


 Neil Armstrong (Cosmonaut, American)

 Abdul Basit (Trablus)
 Dona Summer (Singer, American)
NoroDim (Kambodia's  King) 

 Lairi Hagman (Actor, American)
 Oskarni Mayer (Architect، Brazil )
 Pandat Ravi Shankar (Sattar Nawaz, Indian)
 Rajesh Khanna (Actor, Indian)
 Obaib Ullah Baig (TV Compair, Adeeb, Producer, Danishwar, Pakistani)
Whitney Houston (Singer, Actress, American)






Yesh Chopra (Film Director, Indian)

Thursday, 27 December 2012


دھماکے سے مشرف کے وارنٹ تک
ستائیس دسمبر سنہ دوہزار سات
سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو پر خودکش حملہ کو لیاقت باغ راولپنڈی کے باہر مقامی وقت کے مطابق شام پانچ بجکر گیارہ منٹ پر ہوا۔ سرکاری اعداوشمار کے مطابق اس حملے میں بینظیر بھٹو سمیت چوبیس افراد ہلاک ہوئے جبکہ ستّر زخمی ہوئے۔
اس واقعہ کا مقدمہ اُسی روز رات آٹھ بجکر بیس منٹ پر مقامی تھانہ سٹی راولپنڈی میں درج کیا گیا۔
اٹھائیس دسمبر دو ہزار سات
اس واقعہ کے اگلے روز کو سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور حکومت میں وزارت داخلہ میں نیشنل کرائسز مینجنمٹ سیل کے سربراہ برگیڈئیر ریٹائرڈ جاوید اقبال نے پریس کانفرنس کے دوران انکشاف کیا کہ بینظیر بھٹو کے قتل میں تحریک طالبان پاکستان کے رہنما بیت اللہ محسود ملوث ہے۔
اکتیس دسمبر دو ہزار سات
پنجاب حکومت نے بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کے لیے ایڈیشنل آئی جی چوہدری عبدالمجید کی سربراہی میں ایک مشترکہ تحققیاتی ٹیم تشکیل دی تھی۔
اُنیس جنوری سنہ دوہزار آٹھ
اعتزاز شاہ کو ڈیرہ اسماعیل خان کے تھانے میں درج انسداد دہشت گردی دفعات کے تحت درج کیے جانے والے مقدمے میں گرفتار کیا گیا۔
اکیس جنوری
ایک اور ملزم شیر زمان کو اسی مقدمے میں قبائلی علاقے سے گرفتار کیا گیا۔
سات فروری سنہ دوہزار آٹھ
راولپنڈی کے علاقے مصریال روڈ سے اس مقدمے کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے حسنین گل اور رفاقت حسین کو گرفتار کیا جنہوں نے دوران تفتیش پولیس کو بتایا کہ بینظیر بھٹو کے قتل کی سازش سات افراد نے کالعدم تحریک طالبان کے رہنما بیت اللہ محسود کے ساتھ ملکر تیار کی۔
ان میں صوابی کے نادر خان عرف قاری اسماعیل، وزیرستان کے نصراللہ عرف احمد، عبیدالرحمن عرف نعمان عرف عثمان، مہمند ایجنسی کے عبداللہ عرف صدام، فیض محمد عرف قسقط، جنوبی وزیر ستان سے اکرام اللہ اور سعید عرف بلال شامل ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ بینظیر بھٹو پر خودکش حملہ کرنے کے لیے سعید عرف بلال اور اکرام اللہ کو بھیجا گیا تھا۔پولیس کے مطابق سعید عرف بلال نے بینظیر بھٹو پر خودکش حملہ کیا تھا جبکہ اکرام اللہ جائے حادثہ سے فراد ہوکر جنوبی وزیرستان پہنچ کیا گیا تھا۔
آٹھ فروری کو دو ہزار آٹھ
اُس وقت کی حکومت نے سکاٹ لینڈ یارڈ کو اس واقعہ کی تحققیقات کرنے کا حکم دیا جنہوں نے ایک جامع رپورٹ پیش کی تھی۔
تیرہ فروی سنہ دو ہزار آٹھ
بینظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے میں گرفتار ہونے والے رفاقت حسین اور حسنین گُل نے مقامی مجسٹریٹ کے سامنے اقبالی بیان ریکارڈ کروائے۔
چودہ فروری
مخبر کی اطلاع پر پولیس نے ایک اور ملزم رشید احمد عرف عبدالرشید کو راولپنڈی کے علاقے پیر ودہائی سے گرفتار کیا گیا۔
پندرہ فروری
رشید احمد نے مقامی مجسٹریٹ کے سامنے اپنا اقبالی بیان ریکارڈ کروایا۔ سولہ فوری کو اعتزاز شاہ کا اقبالی بیان ریکارڈ کیا گیا۔
ستائیس فروری سنہ دوہزار آٹھ
سابق وزیر اعظم کے قتل کے مقدمے کی تحقیقات کرنے والی پنجاب پولیس کی مشترکہ تحقیاتی ٹیم نے گرفتار ہونے والے پانچ ملزمان کے خلاف مقدمے کا ریکارڈ انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج کو پیش کردیا جس میں بیت اللہ محسود سمیت پانچ ملزمان کو اشتہاری قرار دیا گیا۔
تیس مئی سنہ دوہزار آٹھ
عدالت نے ملزم اعتزاز شاہ کو کمسن قرار دیتے ہوئے اُس کا چالان الگ سے عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔
آٹھ جولائی
اعتزاز شاہ کا الگ چالان عدالت میں پیش کردیا گیا۔ بائیس نومبر سنہ دوہزار آٹھ کو ملزمان پر فرد جُرم عائد کرنے کے بعد استغاثہ کے پانچ گواہوں کے بیانات قلمبند کیے گئے۔
آٹھ اگست سنہ دو ہزار نو
انسداد دہشت گردی کی عدالت میں وفاقی حکومت کی طرف سے اس مقدمے کی تفتیش ایف آئی اے کو سونپنے اور اس کی عدالتی کارروائی تحقیقات مکمل ہونے تک ملتوی کرنے کی درخواست کی گئی جسے عدالت نے بائیس اگست کو منظور کرتے ہوئے اس مقدمے کی سماعت غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔
نامکمل چالان
بینظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے پر کوئی عدالتی کارروائی نہیں ہوئی اور اس عرصے کے دوران ایف آئی اے نے چھ نامکمل چالان عدالت میں پیش کیے جو کہ بالترتیب 25 مئی 2010،گیارہ جون 2010،تیرہ نومبر 2010،بائس دسمبر 2010 اور 7 فروری 2011 اور 12 جون 2012 کو پیش کیے گئے۔
تیرہ نومبر
چالان میں ایف آئی اے نے راولپنڈی پولیس کے سابق سربراہ ڈی آئی جی سعود عزیز اور ایس پی راول ٹاؤن ایس پی خرم شزاد کو بینظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے میں ملزم نامزد کردیا جبکہ سات فروری کو پیش کیے گیے چالان میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف کو بھی ملزم نامزد کردیا گیا جنہیں بعدازاں عدالت نے اشتہاری قرار دے دیا۔
تین مارچ دوہزار دس
وزارت خارجہ کے حکام نے اس مقدمے کی تحقیقات کرنے والی ٹیم کو خط لکھا جس میں کہا گیا تھا کہ اُن کے پاس ایسی کوئی دستاویزات نہیں ہیں جس میں افعانستان کے صدر حامد کرزئی نے بینظیر بھٹو کی زندگی کو خطرے سے متعلق آگاہ کیا تھا۔
بائیس دسمبر
لاہور ہائی کورٹ روالپنڈی بینچ نے ڈی آئی جی سعود عزیز اور ایس پی خرم شہزاد کی ضمانت قبل ازگرفتاری منسوخ کردی اور ایف آئی اے نے اُنہیں اس مقدمے میں شامل تفتیش کرلیا۔
پولیس افسران نے اپنی گرفتاری کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں ضمانت کی درخواست دی جو کہ 5 اپریل 2011 کو منظور کرلی گئی۔
تیس اگست دو ہزار بارہ
انٹرپول کی طرف سے وفاقی حکومت کو خط لکھا گیا جس میں ملزم پرویز مشرف کی گرفتاری سے متعلق معذوری ظاہر کی گئی تھی۔
دس دسمبر دو ہزار بارہ
حکومت کی جانب سے پرویز مشرف کی گرفتاری سے متعلق انٹرپول کو ایک مرتبہ پھر خط لکھا گیا جس میں سابق فوجی صدر کے وارنٹ گرفتاری اور عدالت کی طرف سے اُنہیں بینظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے میں اشتہاری قرار دینے سے متعلق دستاویزات بھی لف کی گئی ہیں۔
(بشکریہ ی بی سی اردو ڈاٹ کام)