انٹیلی
جنس کی توہین نہ کریں
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
ایک دن
سب ہی کو مرنا ہے۔ جسے موت سے ڈر لگتا ہے اسے بھی، جسے نہیں لگتا اسے بھی۔ تو پھر
یہ سوال ہی بے معنی ہے کہ کوئی کیوں مار رہا ہے اور کوئی کیوں مر رہا ہے۔
اب بدن
میں یہ سن کر بھی سنسنی نہیں دوڑتی کہ کراچی میں تین نائن ایم ایم پستول ایسے بھی
ہیں جن سے اب تک 90 افراد کی ٹارگٹ کلنگ ہوچکی ہے پھر بھی یہ پستول مفرور ہیں۔
اب تو
اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئٹہ شہر کا ہر دوسرا موچی، حجام، سنار، بزاز،
فقیر، چوکیدار، جیب کترا اور کن کٹا جانتا ہے کہ گول چہرے والے ہزاروں ہزاروں کو
مارنے والے بیضوی چہرے کوئٹہ سے مستونگ کے درمیان واقع برمودا ٹرائی اینگل میں
غائب ہو جاتے ہیں۔
اب تو
واٹر ٹینکر دیکھ کر ہی پیاسوں کے ماتھے پر عرقِ خوف آ جاتا ہے۔ کہیں نل کھولنے پر
بارود ہی نہ بہہ نکلے۔
اب تو
یہ بھی منظور ہے کہ نگراں حکومت اور اس کے بعد بننے والی حکومت اور پھر اس کے بعد
آنے والی حکومت میں بھی رحمان ملک ہی رہے۔ بھلے کسی بھی نام سے رہے۔
لوگ
شکر گزار ہیں کہ پہلی دفعہ کسی جمہوری حکومت نے پانچ برس کا ہندسہ پار کر لیا۔ مگر
اس پانچ کے ہندسے کو کیا ایسے پھاوڑے کی شکل دی جاسکتی ہے جسے کراچی میں مرنے والے
کسی خوانچہ فروش یا تربت میں چھلنی ہونے والے کسی مزدور یا لکی مروت میں مرنے والے
کسی سپاہی کی قبر کھودنے یا لاہور میں ڈرائیور باپ کے برابر بیٹھے بچے کی کنپٹی
میں داخل ہونے والی موت کا چہرہ مسخ کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکے؟
اور
پچھلے پانچ برس میں جتنے غائب ہوگئے اور ان میں سے جتنے مسخ لاشوں کے روپ میں واپس
آگئے ان میں سے بہت سوں نے شاید آئین و قانون کی حکمرانی کے لیے پانچ برس پہلے ووٹ
بھی دیا ہوگا۔لیکن ووٹ تو کاغذ کا ہوتا ہے۔آہنی ہاتھوں سے بچانے والی ڈھال تھوڑا
ہوتا ہے۔
ہم
احسان مند ہیں کہ اٹھارھویں آئینی ترمیم کے تحت جتنی صوبائی خودمختاری اس دور میں
ملی پہلے کسی دور میں نہیں ملی۔ لیکن اس صوبائی خودمختاری کا کیا کریں جسے ایک لاش
کے کفن کے طور پر استعمال کرنا بھی محال ہے۔
لاہور
کی میٹرو بس سروس یقیناً قابلِ فخر ہے۔ مگر میت گاڑیوں کی تعداد بھی تو بڑھوایے۔
سندھ
میں بے زمین کسانوں میں اراضی کی تقسیم ثواب کا کام ہے۔ لیکن نئے قبرستانوں کے لیے
جگہ مختص کرکے بھی تو ثوابِ دارین کمایے۔
ملکی
دفاع کے لیے نئی توپیں، ٹینک، طیارے، بحری جہاز، آبدوزیں، رات میں دیکھنے والے
آلات خریدنا کسی بھی ملک اور اس کی فوج کا بنیادی حق ہے۔ اس حق سے کون کافر انکار
کرے گا۔ لیکن زندہ لاشوں کے تحفظ پر اتنا پیسہ کیا دنیا میں کوئی اور ریاست بھی
خرچ کر رہی ہے؟
دہشت
گردوں کے منصوبوں کا بھانڈا پھوڑنے کے لیے تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں کو جدید ترین
سراغرسانی آلات درکار ہیں۔ تو کیا ان آلات کے استعمال کے رہنما کتابچے میں یہ بھی
لکھا ہے کہ جو اہلکار بھی گفتگو سنے وہ ایک کان سے سن کر دوسرے سے اڑا دے۔ بصورتِ
دیگر وہ خود اڑ سکتا ہے۔
خیر یہ
تو مذاق کی باتیں تھیں۔ اصل بات یہ ہے کہ آپ سب اٹھارہ کروڑ عوام کی بہتری چاہتے
ہیں۔ انہیں تعلیم یافتہ، صحت مند، باروزگار، محفوظ، خوش و خرم اور آگے بڑھتا
دیکھنا چاہتے ہیں۔ آپ میں سے جو جہاں ہے، جس ادارے میں جس کرسی پر بھی ہے، یہی اس
کا مقصدِ حیات ہے۔
خدا کے
واسطے جھوٹی نہ کھایے قسمیں
مجھے یقین ہوا، مجھ کو اعتبار آیا
مجھے یقین ہوا، مجھ کو اعتبار آیا
درخواست
بس اتنی ہے کہ ہماری انٹیلی جنس (ذہانت) کی مزید توہین نہ کریں۔
شکریہ
بی بی سی اردو ڈاٹ کام
Follow us on Twitter and Facebook
No comments:
Post a Comment