Monday, 25 February 2013


انٹیلی جنس کی توہین نہ کریں
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
ایک دن سب ہی کو مرنا ہے۔ جسے موت سے ڈر لگتا ہے اسے بھی، جسے نہیں لگتا اسے بھی۔ تو پھر یہ سوال ہی بے معنی ہے کہ کوئی کیوں مار رہا ہے اور کوئی کیوں مر رہا ہے۔
اب بدن میں یہ سن کر بھی سنسنی نہیں دوڑتی کہ کراچی میں تین نائن ایم ایم پستول ایسے بھی ہیں جن سے اب تک 90 افراد کی ٹارگٹ کلنگ ہوچکی ہے پھر بھی یہ پستول مفرور ہیں۔
اب تو اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئٹہ شہر کا ہر دوسرا موچی، حجام، سنار، بزاز، فقیر، چوکیدار، جیب کترا اور کن کٹا جانتا ہے کہ گول چہرے والے ہزاروں ہزاروں کو مارنے والے بیضوی چہرے کوئٹہ سے مستونگ کے درمیان واقع برمودا ٹرائی اینگل میں غائب ہو جاتے ہیں۔
اب تو واٹر ٹینکر دیکھ کر ہی پیاسوں کے ماتھے پر عرقِ خوف آ جاتا ہے۔ کہیں نل کھولنے پر بارود ہی نہ بہہ نکلے۔
اب تو یہ بھی منظور ہے کہ نگراں حکومت اور اس کے بعد بننے والی حکومت اور پھر اس کے بعد آنے والی حکومت میں بھی رحمان ملک ہی رہے۔ بھلے کسی بھی نام سے رہے۔
لوگ شکر گزار ہیں کہ پہلی دفعہ کسی جمہوری حکومت نے پانچ برس کا ہندسہ پار کر لیا۔ مگر اس پانچ کے ہندسے کو کیا ایسے پھاوڑے کی شکل دی جاسکتی ہے جسے کراچی میں مرنے والے کسی خوانچہ فروش یا تربت میں چھلنی ہونے والے کسی مزدور یا لکی مروت میں مرنے والے کسی سپاہی کی قبر کھودنے یا لاہور میں ڈرائیور باپ کے برابر بیٹھے بچے کی کنپٹی میں داخل ہونے والی موت کا چہرہ مسخ کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکے؟
اور پچھلے پانچ برس میں جتنے غائب ہوگئے اور ان میں سے جتنے مسخ لاشوں کے روپ میں واپس آگئے ان میں سے بہت سوں نے شاید آئین و قانون کی حکمرانی کے لیے پانچ برس پہلے ووٹ بھی دیا ہوگا۔لیکن ووٹ تو کاغذ کا ہوتا ہے۔آہنی ہاتھوں سے بچانے والی ڈھال تھوڑا ہوتا ہے۔
ہم احسان مند ہیں کہ اٹھارھویں آئینی ترمیم کے تحت جتنی صوبائی خودمختاری اس دور میں ملی پہلے کسی دور میں نہیں ملی۔ لیکن اس صوبائی خودمختاری کا کیا کریں جسے ایک لاش کے کفن کے طور پر استعمال کرنا بھی محال ہے۔
لاہور کی میٹرو بس سروس یقیناً قابلِ فخر ہے۔ مگر میت گاڑیوں کی تعداد بھی تو بڑھوایے۔
سندھ میں بے زمین کسانوں میں اراضی کی تقسیم ثواب کا کام ہے۔ لیکن نئے قبرستانوں کے لیے جگہ مختص کرکے بھی تو ثوابِ دارین کمایے۔
ملکی دفاع کے لیے نئی توپیں، ٹینک، طیارے، بحری جہاز، آبدوزیں، رات میں دیکھنے والے آلات خریدنا کسی بھی ملک اور اس کی فوج کا بنیادی حق ہے۔ اس حق سے کون کافر انکار کرے گا۔ لیکن زندہ لاشوں کے تحفظ پر اتنا پیسہ کیا دنیا میں کوئی اور ریاست بھی خرچ کر رہی ہے؟
دہشت گردوں کے منصوبوں کا بھانڈا پھوڑنے کے لیے تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں کو جدید ترین سراغرسانی آلات درکار ہیں۔ تو کیا ان آلات کے استعمال کے رہنما کتابچے میں یہ بھی لکھا ہے کہ جو اہلکار بھی گفتگو سنے وہ ایک کان سے سن کر دوسرے سے اڑا دے۔ بصورتِ دیگر وہ خود اڑ سکتا ہے۔
خیر یہ تو مذاق کی باتیں تھیں۔ اصل بات یہ ہے کہ آپ سب اٹھارہ کروڑ عوام کی بہتری چاہتے ہیں۔ انہیں تعلیم یافتہ، صحت مند، باروزگار، محفوظ، خوش و خرم اور آگے بڑھتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ آپ میں سے جو جہاں ہے، جس ادارے میں جس کرسی پر بھی ہے، یہی اس کا مقصدِ حیات ہے۔
خدا کے واسطے جھوٹی نہ کھایے قسمیں
مجھے یقین ہوا، مجھ کو اعتبار آیا
درخواست بس اتنی ہے کہ ہماری انٹیلی جنس (ذہانت) کی مزید توہین نہ کریں۔
شکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام
Follow us on Twitter and Facebook

Saturday, 16 February 2013

شہاب ثاقب کی بارش کے باعث چار افراد زخمی
اطلاعات کے مطابق وسطی روس میں شہاب ثاقب کی بارش کے باعث کئی افراد زخمی ہوئے ہیں جبکہ املاک کو بھی نقصان
 پہنچا ہے۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق روس کے علاقے یوورول پر جلتے ہوئے شہاب ثاقب گرتے ہوئے سینکڑوں کلومیٹر دور سے دیکھے جا سکتے ہیں۔
یوورول کے علاقے چیلجیابنسک کے ایک رہائشی کا کہنا ہے کہ شہاب ثاقب کی بارش کے باعث زمین لرز رہی ہے، کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ رہے ہیں اور گاڑیوں کے الارم بج رہے ہیں۔
چیلجیابنسک سے دو سو کلومیٹر دور یکاترنبرگ کے علاقے کے ایک رہائشی نے برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کو بتایا کہ وہ شہاب ثاقب کی بارش کو دیکھ سکتے ہیں۔
روس کی وزارت ایمرجنسیز کے ترجمان نے خبر رساں ایجنسی انٹر فیکس کو بتایا ’شہاب ثاقب کا ٹکڑا چیلجیابنسک علاقے کے اوپر پھٹا ہے۔
چیلجیابنسک میں ایک عینی شاہد نے رائٹرز کو بتایا کہ جمعہ کی صبح ایک زوردار دھماکہ ہوا جس کے باعث انیس منزلہ عمارت لرز اٹھی۔
انٹر فیکس کے مطابق چار افراد زخمی ہوئے ہیں۔

Friday, 8 February 2013


پاکستان ایک فرضی ملک ہے: جسٹس کاٹجو

بھارت میں پریس کونسل کے صدر اور سابق چیف جسٹس مارکنڈے كاٹجو نے کہا ہے کہ پاکستان ایک ’فیک‘ یا فرضی ملک ہے جسے برطانیہ نے تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی کے تحت بنایا تھا۔
دلّی یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے جسٹس (ر) ماركنڈے كاٹجو نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ اگلے پندرہ بیس برسوں میں بھارت اور پاکستان پھر سے ایک ہو جائیں گے اور ایک مضبوط، طاقتور، سیکولر اور روشن خیال حکومت اقتدار میں آئے گی۔
انہوں نے حال میں پاکستانی فوج کی طرف سے مبینہ طور پر بھارتی فوجی کا سر کاٹے جانے کے بعد ذرائع ابلاغ کے ذریعے جنگی جذبات پیدا کیے جانے کی بھی مذمت کی۔
جسٹس مارکنڈے كاٹجو نے کہا کہ ’سب سے پہلے میں آپ کو بتا دوں کہ پاکستان کوئی ملک ہی نہیں ہے۔ یہ ایک فرضی ملک ہے جسے برطانوی حکومت نے اپنی تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی کے تحت بنایا تھا۔ ہم بیوقوف ہیں اور برطانوی ہمیں احمق بناتے رہے ہیں۔
واضح رہے کہ اس سے قبل بھی جسٹس (ر) کاٹجو نے بھارت کی نوے فیصد آبادی کو بے وقوف قرار دیا تھا۔
جسٹس مارکنڈے كاٹجو کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان جنگ کی بات کرنا قوم مخالف کام ہے۔ ان کے مطابق اگر جنگ ہوتی ہے تو دونوں ممالک کی اقتصادی حالت جو پہلے سے ہی خراب ہے مزید برباد ہو جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ’آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ جنگ بہت مہنگی چیز ہے۔ ہم نے تین جنگیں لڑی ہیں۔ کیا اس کی وجہ سے ہمارا معیار زندگی بہتر ہوا ہے؟
انہوں نے فلم اداکاروں اور کھلاڑیوں سے متعلق غیر اہم باتوں کو اچھالنے اور اہم مسائل جیسے غربت، قیمت میں اضافہ، بے روزگاری اور کسانوں کی خود کشیوں کو نظر انداز کرنے پر بھی میڈیا کو آڑے ہاتھوں لیا۔
جسٹس (ر) كاٹجو نے کہا کہ ’گزشتہ پندرہ برسوں میں ڈھائی لاکھ کسانوں نے خود کشی کی ہے لیکن اس خبر کو میڈیا نے پانچ سالوں تک دبایا۔ یہ خبر تبھی سامنے آئی جب پی سائیں ناتھ نے اس کے بارے میں لکھا۔ ابھی بھی کوئی اس کے بارے میں نہیں لکھ رہا۔ سب یہی لکھ رہے ہیں کہ کرینہ کا کس سے عشق چل رہا ہے یا سچن تندولکر اپنی سوویں سنچری بنا رہے ہیں۔
جسٹس مارکنڈے كاٹجو نے اس بات کے لیے بھی میڈیا کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ انّا ہزارے کی بدعنوانی مخالف تحریک کی چوبیس گھنٹے کوریج کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس تحریک پر اس طرح شور مچایا گیا گویا یہ ملک کے تمام مسائل حل کر 
دے گی۔