سنجے مجمدار
بی بی سی نیوز، کانپور
آخری وقت اشاعت: پير 27 مئ 2013
بھارتی شہر کانپور کے ایک گنجان آباد
علاقے میں ایک نوجوان شخص شاپنگ بیگ سے ایک زرد ساڑھی نکال کر اپنی ماں کو پیش کرتا
ہے۔
آپ کو پسند
آئی؟ اس سوال پر ماں کا جواب اثبات میں ہے۔
ویسے تو یہ عام سا منظر ہے لیکن اس میں
خاص بات یہ ہے کہ اس نوجوان شخص کنہیا کو اپنی ماں کو تحفہ دینے کے لیے طویل انتظار
کرنا پڑا ہے۔
انیس برس قبل کہنیا کی ماں وجے کماری
کو اس قتل کے جرم میں سزا ہوئی تھی جو بقول ان کے انہوں نے کیا ہی نہیں تھا۔
اس مقدمے میں انہیں ضمانت تو ملی لیکن
ان کے پاس مچلکے جمع کروانے کے لیے درکار دس ہزار روپے ہی نہیں تھے۔ ان کے خاوند انہیں
چھوڑ چکے تھے اور کوئی اور ان کی مدد کے لیے سامنے نہیں آیا۔
وجے کا کہنا ہے کہ ’مجھے لگتا تھا کہ
میں جیل میں ہی مر جاؤں گی۔ وہاں انہوں نے مجھے بتایا کہ وہاں سے کوئی باہر نہیں نکلا۔‘
جب وجے کو جیل بھیجا گیا تو وہ حاملہ
تھیں اور چار ماہ بعد کنہیا کا جنم ہوا۔
وجے کے مطابق ’جب وہ تھوڑا بڑا ہوا تو
میں نے سے اسے باہر بھیج دیا۔ یہ ایک مشکل فیصلہ تھا لیکن میں اس پر ڈٹ گئی کیونکہ
جیل ایک نوعمر بچے کے لیے صحیح جگہ نہیں۔‘
کنہیا تو باہر چلا گیا لیکن وجے وہیں
جیل میں رہیں۔ ان کے پاس اپنے بیٹے کی ایک چھوٹی سی تصویر تھی یا پھر ان ملاقاتوں کی
یادیں جو ہر تین ماہ بعد ہوتی تھیں۔
جیل سے
باہر نکلنے کے بعد کنہیا کا وقت مختلف یتیم خانوں میں گزار لیکن اس نے کبھی اپنی والدہ
کو بھلایا نہیں۔ ’میں انہیں یاد کر کے روتا رہتا تھا۔ وہ جیل میں تھیں اور تن تنہا
تھیں۔ کوئی ان سے ملنے نہیں جاتا تھا اور میرے والد نے ان سے منہ موڑ لیا تھا۔‘
جیسے ہی کنہیا کی عمر اٹھارہ برس ہوئی،
اس نے ملبوسات تیار کرنے والے کارخانے میں کام شروع کر دیا اور اپنی والدہ کی رہائی
ممکن بنانے کے لیے رقم جمع کرنا شروع کر دی۔
آخرِ کار اس نے ایک وکیل کی خدمات حاصل
کیں۔ کنہیا کا کہنا ہے کہ ’مجھے اس وکیل کے بارے میں پتا چلا۔ وہ میری والدہ کے مقدمے
کے بارے میں سن کر حیران رہ گیا۔‘
اس وکیل نے یہ مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کیا
اور ماہِ رواں کے آغاز میں کنہیا کی والدہ کو جیل سے رہائی مل گئی۔
ان کی رہائی کی درخواست کی سماعت کے
دوران جج نے نہ صرف حکام اور نظام کے ’بےرحمانہ اور لاپروا‘ رویوں پر تنقید کی جبکہ
ریاست کی جیلوں میں قید ایسی خواتین کی نشاندہی کا بھی حکم دیا ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ وجے کماری کے
ساتھ پیش آنے والا واقعہ کوئی انوکھا معاملہ نہیں۔
بھارتی جیلوں میں اس وقت اندازوں کے
مطابق تین لاکھ افراد قید ہیں جن میں سے 70 فیصد مقدمہ چلائے جانے کے منتظر ہیں اور
ان میں سے بیشتر ایک طویل عرصے سے قید میں ہیں۔
یہ صورتحال بھارت کے پیچیدہ اور سست
رفتار نظامِ قانون کی عکاس ہے جہاں کسی بھی مقدمے کی سنوائی اور فیصلہ ہونے میں برسوں
بیت جاتے ہیں۔
لیکن فی الحال وجے اور کنہیا ایک بار
پھر ساتھ ہیں لیکن انہیں مستقبل کی فکر کھائے جا رہی ہے۔ وجے کا کہنا ہے کہ ’میں تو
صرف یہ چاہتی ہوں کہ میرے بیٹے کا مستقبل محفوظ ہوجائے کیونکہ میری دنیا تو یہی ہے۔‘
کنہیا مستقبل
میں اپنے والد سے رابطہ کر کے اپنا حق حاصل کرنے کی کوشش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن
فی الحال تو وہ حال میں اپنی والدہ کے ساتھ رہ کر اس کمی کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں جس
کا سامنا انہیں برسوں رہا ہے۔
(بشکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام)