Wednesday, 29 May 2013

ماں کی ضمانت کے لیے 19 سال کی محنت
سنجے مجمدار
بی بی سی نیوز، کانپور
آخری وقت اشاعت:  پير 27 مئ 2013
بھارتی شہر کانپور کے ایک گنجان آباد علاقے میں ایک نوجوان شخص شاپنگ بیگ سے ایک زرد ساڑھی نکال کر اپنی ماں کو پیش کرتا ہے۔
آپ کو پسند آئی؟ اس سوال پر ماں کا جواب اثبات میں ہے۔
ویسے تو یہ عام سا منظر ہے لیکن اس میں خاص بات یہ ہے کہ اس نوجوان شخص کنہیا کو اپنی ماں کو تحفہ دینے کے لیے طویل انتظار کرنا پڑا ہے۔
انیس برس قبل کہنیا کی ماں وجے کماری کو اس قتل کے جرم میں سزا ہوئی تھی جو بقول ان کے انہوں نے کیا ہی نہیں تھا۔
اس مقدمے میں انہیں ضمانت تو ملی لیکن ان کے پاس مچلکے جمع کروانے کے لیے درکار دس ہزار روپے ہی نہیں تھے۔ ان کے خاوند انہیں چھوڑ چکے تھے اور کوئی اور ان کی مدد کے لیے سامنے نہیں آیا۔
وجے کا کہنا ہے کہ ’مجھے لگتا تھا کہ میں جیل میں ہی مر جاؤں گی۔ وہاں انہوں نے مجھے بتایا کہ وہاں سے کوئی باہر نہیں نکلا۔
جب وجے کو جیل بھیجا گیا تو وہ حاملہ تھیں اور چار ماہ بعد کنہیا کا جنم ہوا۔
وجے کے مطابق ’جب وہ تھوڑا بڑا ہوا تو میں نے سے اسے باہر بھیج دیا۔ یہ ایک مشکل فیصلہ تھا لیکن میں اس پر ڈٹ گئی کیونکہ جیل ایک نوعمر بچے کے لیے صحیح جگہ نہیں۔
کنہیا تو باہر چلا گیا لیکن وجے وہیں جیل میں رہیں۔ ان کے پاس اپنے بیٹے کی ایک چھوٹی سی تصویر تھی یا پھر ان ملاقاتوں کی یادیں جو ہر تین ماہ بعد ہوتی تھیں۔
جیل سے باہر نکلنے کے بعد کنہیا کا وقت مختلف یتیم خانوں میں گزار لیکن اس نے کبھی اپنی والدہ کو بھلایا نہیں۔ ’میں انہیں یاد کر کے روتا رہتا تھا۔ وہ جیل میں تھیں اور تن تنہا تھیں۔ کوئی ان سے ملنے نہیں جاتا تھا اور میرے والد نے ان سے منہ موڑ لیا تھا۔‘
جیسے ہی کنہیا کی عمر اٹھارہ برس ہوئی، اس نے ملبوسات تیار کرنے والے کارخانے میں کام شروع کر دیا اور اپنی والدہ کی رہائی ممکن بنانے کے لیے رقم جمع کرنا شروع کر دی۔
آخرِ کار اس نے ایک وکیل کی خدمات حاصل کیں۔ کنہیا کا کہنا ہے کہ ’مجھے اس وکیل کے بارے میں پتا چلا۔ وہ میری والدہ کے مقدمے کے بارے میں سن کر حیران رہ گیا۔
اس وکیل نے یہ مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کیا اور ماہِ رواں کے آغاز میں کنہیا کی والدہ کو جیل سے رہائی مل گئی۔
ان کی رہائی کی درخواست کی سماعت کے دوران جج نے نہ صرف حکام اور نظام کے ’بےرحمانہ اور لاپروا‘ رویوں پر تنقید کی جبکہ ریاست کی جیلوں میں قید ایسی خواتین کی نشاندہی کا بھی حکم دیا ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ وجے کماری کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ کوئی انوکھا معاملہ نہیں۔
بھارتی جیلوں میں اس وقت اندازوں کے مطابق تین لاکھ افراد قید ہیں جن میں سے 70 فیصد مقدمہ چلائے جانے کے منتظر ہیں اور ان میں سے بیشتر ایک طویل عرصے سے قید میں ہیں۔

یہ صورتحال بھارت کے پیچیدہ اور سست رفتار نظامِ قانون کی عکاس ہے جہاں کسی بھی مقدمے کی سنوائی اور فیصلہ ہونے میں برسوں بیت جاتے ہیں۔
لیکن فی الحال وجے اور کنہیا ایک بار پھر ساتھ ہیں لیکن انہیں مستقبل کی فکر کھائے جا رہی ہے۔ وجے کا کہنا ہے کہ ’میں تو صرف یہ چاہتی ہوں کہ میرے بیٹے کا مستقبل محفوظ ہوجائے کیونکہ میری دنیا تو یہی ہے۔
کنہیا مستقبل میں اپنے والد سے رابطہ کر کے اپنا حق حاصل کرنے کی کوشش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن فی الحال تو وہ حال میں اپنی والدہ کے ساتھ رہ کر اس کمی کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں جس کا سامنا انہیں برسوں رہا ہے۔

(بشکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام)

Wednesday, 24 April 2013


کہانی ایک سیّد صاحب کی
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
جس زمانے میں سیّد پرویز مشرف نے سرپرستِ اعلیٰ (صدرِ پاکستان) ، چیف ایگزیکٹو آف پاکستان لمیٹڈ ، سپاہ سالار اور رئیس مجلسِ سپاہ سالاران (چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی) کی چار دستاریں پہن رکھی تھیں تب انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ مجھے کوئی شوق نہیں تھا بارہ اکتوبر انیس سو ننانوے کو اقتدار سنبھالنے کا۔ مجھے تو کسی نے اس تالاب میں دھکا دے دیا تھا۔
پھر ان کی کتاب ’ان دی لائن آف فائر‘ پڑھنے سے اندازہ ہوا کہ سیّد صاحب کی تو پوری زندگی ہی دھکم پیل کی تصویر ہے۔ پہلا دھکا تقسیم کی شکل میں پہنچا جب لاکھوں دیگر کی طرح ان کے خاندان کو بھی دلی کے کوچہ سعد اللہ سے کراچی کے ناظم آباد تک آنا پڑا۔
انیس سو چونسٹھ میں جب سیّد صاحب کو فوجی کمیشن ملا تو بھٹو اور ایوب خان نے پاکستان کو کشمیر کے تالاب میں دھکا دے دیا اور یوں پینسٹھ کی لڑائی کے دوران سیکنڈ لیفٹننٹ پرویز مشرف نے خود کو کھیم کرن کے محاذ پر دشمن سے دھکم پیل میں پایا۔
سنہ اکہتر میں جب یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان کو کنوئیں میں دھکا دے دیا تو سیّد صاحب اس وقت ایک درمیانے درجے کے افسر تھے۔ چنانچہ وہ اس دھکم دھکی سے بچے رہے۔ لیکن جب انیس سو اٹھانوے میں نواز شریف نے چار پانچ فوجی افسروں کو سینیارٹی کی سیڑھی سے دھکا دے کر سیّد صاحب کو سب سے آگے کھڑا کردیا تو سیّد صاحب نے ایک سیکنڈ ضائع کیے بغیر پاکستان کو کارگل کی چوٹیوں سے دھکا دے دیا۔ اور جب نواز شریف نے انہیں طیارے سے دھکا دینے کی کوشش کی تو سیّد صاحب سیدھے اقتدار کے تالاب میں اور دھکا دینے والا توازن کھونے کے سبب اٹک کے قلعے میں آن گرا۔

پھر امریکہ نے سیّد صاحب کو نائن الیون کے غار میں دھکا دے دیا۔ مگر سیّد صاحب خود کو اس چوٹ سے بچانے کے لیے ملک کی ٹانگوں سے لپٹ گئے اور اپنے ساتھ پاکستان کو بھی نائن الیون کے غار میں لے گئے۔ کچھ عرصے بعد بمشکل انہوں نے امریکہ کی سیاسی و اقتصادی سیڑھی کی مدد سے خود کو اس غار سے نکالا ہی تھا کہ چیف جسٹس افتخار چوہدری کو راستے میں کھڑا دیکھ کر ایسا ناظم آبادی اڑنگا لگایا کہ خود سیّد صاحب بھی منہ کے بل گرگئے۔
اس دوران کسی نے ان سے پوچھا کہ وردی کب اتاریے گا؟ کہنے لگے یہ وردی نہیں ان کی کھال ہے۔ اور جب یہ کھال بالآخر اتری تو پتہ یہ چلا کہ وہ جتنے کمانڈو تھے اس سے زیادہ کمانڈو تخلص کرتے تھے۔ سب سے پہلے یہ راز آصف زرداری کو پتہ چلا لہٰذا انہوں نے پہلی فرصت میں حضرتِ کمانڈو دہلوی کو گارڈ آف آنر دکھا کر طیارے کی سیڑھیوں پر اوپر کی جانب ایسے دھکا دیا جیسے پرویز مشرف نا ہوں کوئی رفیق تارڑ ہوں۔
اگلے پانچ برس تک جب سیّد صاحب دیارِ غیر میں پاکستانی جمہوریت کے فروغ میں اپنے مدبرانہ کردار پر روشنی ڈال ڈال کے شل ہوگئے تو انہیں دوبارہ سے بے یقینی کے گدلے ساحل پر پھنسے ہوئے پاکستان کو صاف پانیوں میں دھکا دینے کے لیے ٹگ بوٹ بننے کا خیال آیا۔ مگر اس وقت تک اپنوں کے ہی زخم خوردہ سیّد صاحب کے پاس ذاتی مقبولیت کو جانچنے کا صرف ایک ہی پیمانہ بچا تھا یعنی فیس بک۔ چنانچہ انہوں نے چار لاکھ فیس بکیوں کی نیک تمناؤں کے سہارے دو دفعہ ملک میں خمینی اور بینظیر سٹائل میں اترنے کی دھمکی دی۔ ایک آدھ ٹیلی وڈیو جلسے کے ذریعے درجہ حرارت ناپا۔ اپنی مقبولیت کو جمع تقسیم کیا اور خود کو بدلے بدلے سے پاکستان میں دھکا دے دیا۔
جب وہ کراچی میں اترے تو لاکھوں انٹرنیٹیوں میں سے تقریباً ایک سو کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر نے والہانہ استقبال کیا۔ مگر سیّد صاحب نے واپسی کی فلائٹ بک کرانے کو ایک بانکے کمانڈو کی روایتی شان کے خلاف سمجھا اور بلٹ پروف جیکٹ پہنے پہنے عمارت در عمارت گھومتے گھماتے عدالتی کمرے میں جا نکلے اور پھر بطور سلطان راہی مثالی حاضر دماغی سے کام لیتے ہوئے مشینی گھوڑے پر سوار وہ بہادرانہ پسپائی اختیار کی کہ اپنے ہی گھر کی جیل میں پہنچ کر دم لیا۔
کیا رات کی تاریکی میں پھر کوئی اڑن کھٹولا اترے گا اور اس بار پرویز مشرف کو پیا کے دیس لے جائے گا؟
کیا لال مسجد، نائن الیون، اکبر بگٹی، ایمرجنسی کے نفاذ، ججوں کی نظربندی، بینظیر قتل اور آئین سے بغاوت کی فائلیں اسی طرح داخلِ دفتر کرنے کی کوشش ہوگی جس طرح لیاقت علی خان، ضیاء الحق اور بینظیر بھٹو کے ساتھ کئی فائلیں چلی گئیں؟
یا پہلی دفعہ کوئی سابق فوجی حکمراں سویلین قانون کی مکمل حکمرانی کی پہلی پاکستانی مثال بنا دیا جائے گا؟
ہم جواب بتا کر آپ کی فلم کا مزہ خراب نہیں کرنا چاہتے۔ انٹرول کے بعد کی پہلی گھنٹی بج چکی ہے۔ براہِ کرم اپنی نشستوں پر تشریف رکھیے ۔خاموشی سے اس ایکشن تھرلر ڈرامے کا مزہ لیجیے۔
Get News Alert free on your Mobile
Type "MediaMirrorX" and send to 40404

Saturday, 30 March 2013


بھارت کے ایک گاؤں کی عجب ریت
عمر فاروق
بی بی سی، حیدرآباد
بھارت کی جنوبی ریاست آندھرا پردیش کے وارنگل ضلع میں ایک چھوٹا سا دور افتادہ گاؤں منگل تھانڈا ہے۔ اس گاؤں میں جب شادی ہو تو غریب سے غریب خاندان کو بھی ایک چیز لازمی طور سے جہیز میں دینی پڑتی ہے اور وہ ہے ٹرک کے ٹائر کی پرانی ٹيوب۔
اس منفرد تحفے یا جہیز کی وجہ یہ ہے کہ اس گاؤں کا راستہ ایک ندی نے روک رکھا ہے۔ یہاں کے لوگوں کو اگر کوئی چیز لینے کے لیے باہر جانا ہوتا ہے تو وہ ٹیوب کے سہارے ہی ندی پار کرتے ہیں۔
منگل تھانڈا پہنچنے کا راستہ اتنا خراب ہے کہ وہاں گاڑی سے پہنچنا ممکن نہیں۔ اور آپ پیدل جانا چاہیں تو پانچ کلو میٹر کی دوری طے کرنی ہوگی۔ اس گاؤں کو دنیا سے جوڑنے کا دوسرا راستہ ایک ندی ’واٹّے واگو‘ نے روک رکھا ہے۔ اس لیے اس گاؤں کے ہر خاندان کی زندگی ٹرک کی ٹیوب پر ٹکی ہوئی ہے جسے یہ لوگ ایک کشتی کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
منگل تھانڈا لمباڈا قبائل کا ایک ایسا گاؤں ہے جو اپنے راشن، سکول، ہسپتال، بینک اور دوسری تمام بنیادی سہولیات کے لیے دریا کے اس پار واقع سرپلّي گاؤں پر منحصر ہے۔
  وہاں تک پہنچنے کا واحد ذریعہ ٹیوب ہے جسے اتنی ہی اہمیت حاصل ہے جتنی کے ڈوبتے ہوئے انسان کے لیے ایک لائف جیکٹ کی ہوتی ہے۔ شاید اسی لیے ہر ماں باپ کو اپنی بیٹی کے جہیز میں ایک نہیں، بلکہ دو ٹیوب دینے پڑتے ہیں۔ ایک بیٹی کے لیے اور دوسرا داماد کے لیے تاکہ وہ محفوظ طریقے سے دریا پار جا آ سکیں۔
جب میں اس گاؤں میں گیا تو ہر گھر کے باہر ایک ٹیوب ایسے رکھی تھی جیسے کوئی گاڑی رکھی ہو، یا کوئی جانور بندھا ہو۔گاؤں کے ایک نوجوان تیجاوت نوین نے بتایا ’ٹیوب کے بغیر تو شادی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ پرانے ٹیوب کی قیمت تین سو سے پانچ سو روپے ہوتی ہے جبکہ نئی ٹیوب نو سو روپے میں ملتی ہے۔ میری شادی ہو گی تو میں بھی اپنی سسرال سے ایک ٹیوب مانگوں گا۔
ان لوگوں کی زندگی ٹیوب پر اس قدر منحصر ہے کہ جب ایک نئی نویلي دلہن کویتا اپنے مائکے آئی تو لوگ ان سے زیادہ ان کی ٹیوب کی خیر خبر لے رہے تھے۔ایک اور خاتون تكّو بھی وہ دن یاد کر کے ہنس رہی تھیں جب ان کی شادی میں ان کے والد نے دو ٹیوب دیے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر سال ایک نئی ٹیوب لینی پڑتی ہے کیونکہ پرانی خراب ہو جاتی ہے۔گاؤں کے ایک اور شخص گوگلت راملو کا کہنا ہے کہ اس گاؤں میں کوئی سہولت نہ ہونے سے انہیں ہر چیز کے لیے ندی پار سرپلّي جانا پڑتا ہے جس میں مہینے کا راشن بھی ہوتا ہے۔ کبھی کبھی ٹيوب کے ساتھ یہ لگاؤ جان لیوا بھی ثابت ہوتا ہے۔
غصے میں بھری ہوئی بھوكیہ كومٹي نے کہا ’دو سال میں چار لوگ اس دریا کو پار کرنے کی کوشش میں ڈوب چکے ہیں، ان میں تین خواتین تھیں۔ کبھی پانی کا بہاؤ اتنا تیز ہو جاتا ہے کہ یہ ٹیوب بھی ہمیں نہیں بچا سکتی ہے۔ آخر ہم کس طرح زندہ رہیں۔ اگر ہم دوسرے راستے سے جانا چاہتے ہیں تو کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ سہولیات کا یہ حال ہے کہ گاؤں میں بیت الخلا تک نہیں ہے۔
راستہ نہ ہونے کی وجہ سے کوئی افسر یہاں نہیں آتا ہے اور نہ ہی کسی فلاحی اسکیم کا فائدہ ان لوگوں کو مل پاتا ہے۔ یہ فطری بات ہے کہ سب سے زیادہ پریشانی کا سامنا عورتوں کو کرنا پڑتا ہے وہ بھی حاملہ خواتین کو۔
یک خاتون جمبلي نے بتایا کہ بچے کی پیدائش کے لیے اگر عورت کو ہسپتال جانا پڑے تو کوئی گاڑی گاؤں تک نہیں آ سکتی۔ اگر عورت کو نرسم پیٹ ہسپتال جانا پڑے تو اسے پہلے سرپلّي گاؤں جانا ہوگا جبکہ دوسرے راستے پر دستیاب ہسپتال 12 کلومیٹر دور ہے۔
خواتین کی طرح طلبہ کو بھی بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ گاؤں کے اسکول میں صرف دو کلاسیں ہیں اور آگے پڑھنے کے لیے انہیں دریا پار سرپلّي کے اسکول جانا پڑتا ہے۔ اس گاؤں کے سب سے زیادہ تعلیم یافتہ شخص جونیئر کالج کے پاس راجندر کا کہنا ہے کہ ’دریا پار کرتے ہوئے بچوں کے کپڑے گیلے ہو جاتے ہیں یا کیچڑ میں خراب ہو جاتے ہیں۔ پھر اسکول میں استاد ان کی پٹائی کرتے ہیں کہ ایسی گندی حالت میں کیوں آئے۔
ایسا نہیں ہے کہ گاؤں کے لوگوں نے اپنی پریشانیوں کے لیے کہیں فریاد نہیں کی جب بھی انتخابات آتے ہیں تو ہر امیدوار سڑک اور پل کا وعدہ کرتا ہے لیکن انتخابات کے بعد اسے کچھ یاد نہیں رہتا۔ ایک خاتون بھنوٹ بجّي کا ماننا ہے کہ ’قصور گاؤں کے مردوں کا بھی ہے۔جو بھی امیدوار ان کو شراب کی ایک بوتل دے دیتا ہے وہ اسی کو ووٹ دے دیتے ہیں۔ انہیں سڑک اور پل کی پرواہ نہیں ہوتی۔ تکلیف تو ہم خواتین کو اٹھانی پڑتی ہے۔
لیکن اب کی بار گاؤں والے سنجیدہ ہیں۔ جیسے جیسے انتخابات کی آہٹ بڑھ رہی ہے، گا‏ؤں والوں کا غصہ بڑھ رہا ہے اور انہوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اگر اس سے پہلے پل یا سڑک کی تعمیر نہیں ہوئی تو وہ انتخابات کا بائیکاٹ کر دیں گے اور گاؤں کے 250 ووٹ کسی کو بھی نہیں ملیں گے۔
www.twitter.com/MediaMirrorX

Monday, 25 February 2013


انٹیلی جنس کی توہین نہ کریں
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
ایک دن سب ہی کو مرنا ہے۔ جسے موت سے ڈر لگتا ہے اسے بھی، جسے نہیں لگتا اسے بھی۔ تو پھر یہ سوال ہی بے معنی ہے کہ کوئی کیوں مار رہا ہے اور کوئی کیوں مر رہا ہے۔
اب بدن میں یہ سن کر بھی سنسنی نہیں دوڑتی کہ کراچی میں تین نائن ایم ایم پستول ایسے بھی ہیں جن سے اب تک 90 افراد کی ٹارگٹ کلنگ ہوچکی ہے پھر بھی یہ پستول مفرور ہیں۔
اب تو اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئٹہ شہر کا ہر دوسرا موچی، حجام، سنار، بزاز، فقیر، چوکیدار، جیب کترا اور کن کٹا جانتا ہے کہ گول چہرے والے ہزاروں ہزاروں کو مارنے والے بیضوی چہرے کوئٹہ سے مستونگ کے درمیان واقع برمودا ٹرائی اینگل میں غائب ہو جاتے ہیں۔
اب تو واٹر ٹینکر دیکھ کر ہی پیاسوں کے ماتھے پر عرقِ خوف آ جاتا ہے۔ کہیں نل کھولنے پر بارود ہی نہ بہہ نکلے۔
اب تو یہ بھی منظور ہے کہ نگراں حکومت اور اس کے بعد بننے والی حکومت اور پھر اس کے بعد آنے والی حکومت میں بھی رحمان ملک ہی رہے۔ بھلے کسی بھی نام سے رہے۔
لوگ شکر گزار ہیں کہ پہلی دفعہ کسی جمہوری حکومت نے پانچ برس کا ہندسہ پار کر لیا۔ مگر اس پانچ کے ہندسے کو کیا ایسے پھاوڑے کی شکل دی جاسکتی ہے جسے کراچی میں مرنے والے کسی خوانچہ فروش یا تربت میں چھلنی ہونے والے کسی مزدور یا لکی مروت میں مرنے والے کسی سپاہی کی قبر کھودنے یا لاہور میں ڈرائیور باپ کے برابر بیٹھے بچے کی کنپٹی میں داخل ہونے والی موت کا چہرہ مسخ کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکے؟
اور پچھلے پانچ برس میں جتنے غائب ہوگئے اور ان میں سے جتنے مسخ لاشوں کے روپ میں واپس آگئے ان میں سے بہت سوں نے شاید آئین و قانون کی حکمرانی کے لیے پانچ برس پہلے ووٹ بھی دیا ہوگا۔لیکن ووٹ تو کاغذ کا ہوتا ہے۔آہنی ہاتھوں سے بچانے والی ڈھال تھوڑا ہوتا ہے۔
ہم احسان مند ہیں کہ اٹھارھویں آئینی ترمیم کے تحت جتنی صوبائی خودمختاری اس دور میں ملی پہلے کسی دور میں نہیں ملی۔ لیکن اس صوبائی خودمختاری کا کیا کریں جسے ایک لاش کے کفن کے طور پر استعمال کرنا بھی محال ہے۔
لاہور کی میٹرو بس سروس یقیناً قابلِ فخر ہے۔ مگر میت گاڑیوں کی تعداد بھی تو بڑھوایے۔
سندھ میں بے زمین کسانوں میں اراضی کی تقسیم ثواب کا کام ہے۔ لیکن نئے قبرستانوں کے لیے جگہ مختص کرکے بھی تو ثوابِ دارین کمایے۔
ملکی دفاع کے لیے نئی توپیں، ٹینک، طیارے، بحری جہاز، آبدوزیں، رات میں دیکھنے والے آلات خریدنا کسی بھی ملک اور اس کی فوج کا بنیادی حق ہے۔ اس حق سے کون کافر انکار کرے گا۔ لیکن زندہ لاشوں کے تحفظ پر اتنا پیسہ کیا دنیا میں کوئی اور ریاست بھی خرچ کر رہی ہے؟
دہشت گردوں کے منصوبوں کا بھانڈا پھوڑنے کے لیے تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں کو جدید ترین سراغرسانی آلات درکار ہیں۔ تو کیا ان آلات کے استعمال کے رہنما کتابچے میں یہ بھی لکھا ہے کہ جو اہلکار بھی گفتگو سنے وہ ایک کان سے سن کر دوسرے سے اڑا دے۔ بصورتِ دیگر وہ خود اڑ سکتا ہے۔
خیر یہ تو مذاق کی باتیں تھیں۔ اصل بات یہ ہے کہ آپ سب اٹھارہ کروڑ عوام کی بہتری چاہتے ہیں۔ انہیں تعلیم یافتہ، صحت مند، باروزگار، محفوظ، خوش و خرم اور آگے بڑھتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ آپ میں سے جو جہاں ہے، جس ادارے میں جس کرسی پر بھی ہے، یہی اس کا مقصدِ حیات ہے۔
خدا کے واسطے جھوٹی نہ کھایے قسمیں
مجھے یقین ہوا، مجھ کو اعتبار آیا
درخواست بس اتنی ہے کہ ہماری انٹیلی جنس (ذہانت) کی مزید توہین نہ کریں۔
شکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام
Follow us on Twitter and Facebook

Saturday, 16 February 2013

شہاب ثاقب کی بارش کے باعث چار افراد زخمی
اطلاعات کے مطابق وسطی روس میں شہاب ثاقب کی بارش کے باعث کئی افراد زخمی ہوئے ہیں جبکہ املاک کو بھی نقصان
 پہنچا ہے۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق روس کے علاقے یوورول پر جلتے ہوئے شہاب ثاقب گرتے ہوئے سینکڑوں کلومیٹر دور سے دیکھے جا سکتے ہیں۔
یوورول کے علاقے چیلجیابنسک کے ایک رہائشی کا کہنا ہے کہ شہاب ثاقب کی بارش کے باعث زمین لرز رہی ہے، کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ رہے ہیں اور گاڑیوں کے الارم بج رہے ہیں۔
چیلجیابنسک سے دو سو کلومیٹر دور یکاترنبرگ کے علاقے کے ایک رہائشی نے برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کو بتایا کہ وہ شہاب ثاقب کی بارش کو دیکھ سکتے ہیں۔
روس کی وزارت ایمرجنسیز کے ترجمان نے خبر رساں ایجنسی انٹر فیکس کو بتایا ’شہاب ثاقب کا ٹکڑا چیلجیابنسک علاقے کے اوپر پھٹا ہے۔
چیلجیابنسک میں ایک عینی شاہد نے رائٹرز کو بتایا کہ جمعہ کی صبح ایک زوردار دھماکہ ہوا جس کے باعث انیس منزلہ عمارت لرز اٹھی۔
انٹر فیکس کے مطابق چار افراد زخمی ہوئے ہیں۔

Friday, 8 February 2013


پاکستان ایک فرضی ملک ہے: جسٹس کاٹجو

بھارت میں پریس کونسل کے صدر اور سابق چیف جسٹس مارکنڈے كاٹجو نے کہا ہے کہ پاکستان ایک ’فیک‘ یا فرضی ملک ہے جسے برطانیہ نے تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی کے تحت بنایا تھا۔
دلّی یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے جسٹس (ر) ماركنڈے كاٹجو نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ اگلے پندرہ بیس برسوں میں بھارت اور پاکستان پھر سے ایک ہو جائیں گے اور ایک مضبوط، طاقتور، سیکولر اور روشن خیال حکومت اقتدار میں آئے گی۔
انہوں نے حال میں پاکستانی فوج کی طرف سے مبینہ طور پر بھارتی فوجی کا سر کاٹے جانے کے بعد ذرائع ابلاغ کے ذریعے جنگی جذبات پیدا کیے جانے کی بھی مذمت کی۔
جسٹس مارکنڈے كاٹجو نے کہا کہ ’سب سے پہلے میں آپ کو بتا دوں کہ پاکستان کوئی ملک ہی نہیں ہے۔ یہ ایک فرضی ملک ہے جسے برطانوی حکومت نے اپنی تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی کے تحت بنایا تھا۔ ہم بیوقوف ہیں اور برطانوی ہمیں احمق بناتے رہے ہیں۔
واضح رہے کہ اس سے قبل بھی جسٹس (ر) کاٹجو نے بھارت کی نوے فیصد آبادی کو بے وقوف قرار دیا تھا۔
جسٹس مارکنڈے كاٹجو کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان جنگ کی بات کرنا قوم مخالف کام ہے۔ ان کے مطابق اگر جنگ ہوتی ہے تو دونوں ممالک کی اقتصادی حالت جو پہلے سے ہی خراب ہے مزید برباد ہو جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ’آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ جنگ بہت مہنگی چیز ہے۔ ہم نے تین جنگیں لڑی ہیں۔ کیا اس کی وجہ سے ہمارا معیار زندگی بہتر ہوا ہے؟
انہوں نے فلم اداکاروں اور کھلاڑیوں سے متعلق غیر اہم باتوں کو اچھالنے اور اہم مسائل جیسے غربت، قیمت میں اضافہ، بے روزگاری اور کسانوں کی خود کشیوں کو نظر انداز کرنے پر بھی میڈیا کو آڑے ہاتھوں لیا۔
جسٹس (ر) كاٹجو نے کہا کہ ’گزشتہ پندرہ برسوں میں ڈھائی لاکھ کسانوں نے خود کشی کی ہے لیکن اس خبر کو میڈیا نے پانچ سالوں تک دبایا۔ یہ خبر تبھی سامنے آئی جب پی سائیں ناتھ نے اس کے بارے میں لکھا۔ ابھی بھی کوئی اس کے بارے میں نہیں لکھ رہا۔ سب یہی لکھ رہے ہیں کہ کرینہ کا کس سے عشق چل رہا ہے یا سچن تندولکر اپنی سوویں سنچری بنا رہے ہیں۔
جسٹس مارکنڈے كاٹجو نے اس بات کے لیے بھی میڈیا کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ انّا ہزارے کی بدعنوانی مخالف تحریک کی چوبیس گھنٹے کوریج کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس تحریک پر اس طرح شور مچایا گیا گویا یہ ملک کے تمام مسائل حل کر 
دے گی۔

Monday, 14 January 2013


کہاں راجا بھوج کہاں گنگوا تیلی ۔کہاں معمارِ قوم اور کہاں یہ دہشت گرد؟
قائداعظم محمدعلی جناح نے پاکستانی قوم کوا زندہ قوموموں کی صف
میں شامل کرنےکےلئےاپناتن،من اوردھن سب کُچھ قُربان کردیاتھا جبکہ
کالیئے کی اپنی یہ حالت ھےکہ اُس کی صُبح کاآغاز ھی مُخالفین کےقتل
سےھوتاھے اوربےروزگارھونےکےباوجود اُس کی رات بُھتے کی رقم گِنتے
ھُوئے گُزر جاتی ھے ،کہاں قائداعظم اپنی صحت کی پروانہ کرتے ھُوئے انتھک
محنت کرنےوالااِنسان اورکہاں بوری لاشیں تُحفے میں دینےوالایہ ڈان ؟لہٰذا
قائداعظم کےمُقابلہ پرآنےسےپہلےذرا نویں جُماعت کے مضمون مطالعہ پاکستان
کامطالعہ تو یہ کرلیتا۔اور ھاں یہ اپنی ٹُوٹی پُھوٹی انگریزی سےکب تک عوام کو
بےوقوف بناؤگے الطاف بھائی ؟
ریاض خان ھزاروی