Saturday, 17 November 2012


'کُکڑ' تے 'کوکڑی'

جو لوگ گاؤں کے رہنے والے ہیں یاوہ جو پنجابی جانتے ہیں وہ سمجھ گئے ہو ں گے کہ’’کُکڑ اور کوکڑی‘‘ کیا ہوتا ہے لیکن بعض لوگوں کو سمجھ نہیں آیا ہو گا تو ان کے لیے عرض کرتا چلوں کہ پنجابی میں مُرغے کو 'کُکڑ' کہتے ہیں اور جو  ان مرغوں کو لڑاتے ہیں ان 'کوکڑی' کہتے ہیں اور اردو میں ان معزز حضرات کو شکاری کہتے ہیں۔ اور جہاں ان مرغوں کا دنگل ہوتا ہے اس جگہ کو ’’پِڑ‘‘ کہتے ہیں اور دیکھنے والوں کو مجمع، تماشائی یا مہذب زبان میں تماشبین کہہ لیں۔یہ دنگل سارا سال ہوتے رہتے ہیں لیکن مخصوص مواقع یا مخصوص دنوں مثلاَ عیدیا میلوں وغیرہ پر ان میں تیزی آجاتی ہے ۔اس میں اعلٰی قسم کے مرغے بطور پہلوان حصہ لیتے ہیں اور ان کے پہلوانی نام بھی ہوتے ہیں مثلا باغی،  فرزند گاؤں،  ملتانی، سونامی،  لاہوری، گجراتی، دھرنا ،  بھیّاوغیرہ وغیرہ۔ مالکان سارا سال ان پہلوانوں(مرغوں) کی خدمت کرتے ہیں ان کو بادام ، چاندی کے ورق، زیتون کی مالش اور نہ جانے کیا کیا ۔ جب یہ میدان میں اترتے ہیں تو بغیر کسی ذاتی دشمنی اور انا کے ایک دوسرے کا وہ حال کرتے ہیں کہ مت پوچھیے، مار مار کے ایک دوسرے کو گنجا کر دیتے ہیں، آنکھ پھوڑ دیتے ہیں اور لہو لہان ہو جاتے ہیں لیکن باز نہیں آتے ،ٹائم ختم ہو جاتا ہے لیکن یہ اتنے ڈھیٹ اور ضدی ہوتے ہیں کہ اتنا بے عزت ہونے کے باوجودبھی اپنے مالک کی سر بلندی کے لیے میدان چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتے یہ تو بھلا ہو ریفری کا جو ٹائم ختم ہونے کی سیٹی بجا دیتا ہے۔ٹائم ختم ہونے پر بھی یہ مالک کے ہاتھ سے چھوٹ چھوٹ کر حملے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ تو تھا "کُکڑاور کوکڑی" او ر یہ ایک چھوٹے لیول کامقابلہ ہے جس سے صرف چند لوگ ہی محظوظ ہو پاتے ہیں اور وہ بھی گاؤں والے یاخال خال شہری بھی۔ لیکن اس سے ملتے جلتے گرینڈ مقابلے روزانہ بیسوں کی تعداد میں ہوتے ہیں جن سے نہ صرف پاکستانی دیہاتی اور شہری محظوظ ہوتے ہیں بلکہ پوری دنیا لطف اٹھاتی ہے اور ان کی وجہ سے ہماری ملکی شہرت کو چار چاند نہیں بلکہ سولہ چاند لگ گئے ہیں۔’’سمجھ تے تسی گئے ہوسو‘‘ جی بالکل وہی جنہوں نے ہمارے نجی چینلوں کی شہرت کو آسمان تک پہنچا دیا ہے۔یہ بھی بالکل ’’کُکڑ تے کوکڑی‘‘ والا شو ہے فرق صرف کریکٹرز کا ہے یہاں مرغوں کی جگہ سیاستدان، کوکڑی کی جگہ اینکر، میدان کی جگہ سیٹ اور تماشبین وہی عوام لیکن تعداد زیادہ اور کچھ غیر ملکی بھی۔ اس میں بھی ریفری (چینل )ٹائم سٹارٹ کی سیٹی بجاتا ہے اور کوکڑی یعنی اینکر مرغوں یعنی ہماری مہذب مخلوق سیاستدانوں کومیدان میں چھوڑ دیتا ہے اور پھر یہ مہذب پہلوان ایسے ایسے تہذیبی داؤ پیچ سے ایک دوسرے کو ایسی ایسی مات دیتے ہیں کہ کوکڑی یعنی اینکر کو ویلیں(ریٹنگ کے پیسے) ملتی ہیں، کُکڑوں  کے مالک ( پارٹی لیڈر )ان کو داد دیتے ہیں ، عوام خوشی سے تالیاں بجاتی ہے اور ترقی یافتہ دنیا کہ منہ کھلے رہ جاتے ہیں کہ ہیں ۔۔۔ پاکستانی اتنے ٹیلنٹڈ۔؟؟؟
یہ مقابلے سارا سال جاری رہتے ہیں اور ہم سب انجوائے کرتے ہیں اپنے حصے کے بادام ہم ان کوکھلا دیتے ہیں اور ان باداموں کے عوض یہ ہمیں ایسے ایسے تماشے دیکھاتے ہیں کہ اپنی ساری پریشانیاں(مہنگائی،لوڈشیڈنگ،دہشتگردی وغیرہ) بھول جاتے ہیں۔
آج تک نہ میں نے اور آپ نے بھی ایسا ٹاک شو کبھی نہیں دیکھا ہو گا جس میں کوئی سنجیدہ ملکی مسئلہ زیرِبحث لایا گیا ہوکہ اس سے بچنے کے لئے کیا کرنا چاہیے کوئی پلان آج تک پیش نہیں کیا گیا سوائے الزام بازی کے اور ایک دوسرے کی عزت اچھالنے کے (بالکل مرغوں کی طرح)۔ اور جب اِن سے عہدے پوچھیں تو کوئی پارٹی کا سیکریٹری اِطلاعات ہوتا ہے تو کوئی ملک کا وزیرِ اطلاعات ہوتا ہے،تعلیم پوچھیں تو کوئی اِنجینئز،کوئی پی ایچ ڈی تو کوئی ڈاکٹر ، اِن کے اساتذہ بھی ان پر رشک کرتے ہوں گے۔
دوسری طرف جب کوکڑی یعنی اینکرز کو دیکھتے ہیں تو ان کی ڈگریاں بھی اٹھانے نہیں ہوتی اور ذاتی لائیبریریوں میں بھی ضخیم کتابوں کی دھانکیں لگی ہوتی ہین اور نام لے ساتھ سینیئر، تجزیہ نگاراور دانشور جیسے القابات لگے ہوتے ہیں لیکن ٹاک شوز میں سوال ایسے ایسے پوچھتے ہیں کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے اوپر آہنی قسم کا پاکستانی خول چڑھا کر پاکستان کی ترقی اور عوام کی فلاح کی باتیں ایسے کرتے ہیں کہ لگتا ہے کہ عمرِفاروقؓ کے دور کے معزز ہیں۔آج تک ان محبانِ وطن کو توفیق نہیں ہوئی کہ ایکسپرٹس کو بلائیں اور مسائل پر تبصرے کے ساتھ اُن کا حل بھی بتائیں اور ایسی ٹپس بتائیں کہ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت کچھ کر سکیں اور ان میں مایوسی کم ہو۔ملک کے مختلف حصوں کے سروے کیے جائیں(وزراء کے ساتھ جہاز میں بیٹھ کے نہیں) اور وہاں کے مسائل اور وسائل کے لحاظ سے ان کی رہنمائی کی جائے تا کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکیں نا کہ یہ روزانہ کی کُکڑ لڑائی دکھائیں۔ لیکن جب ذاتی مفاد قومی مفاد پہ ہاوی ہو جائے تو کو'کڑی 'کو 'شو 'کی ریٹنگ نظر آتی ہے اور کُکڑ کو وزارت اور عوام کوصرف تماشہ۔
معین وٹو

No comments:

Post a Comment