Wednesday, 21 November 2012

حملے سے پھانسی تک: اجمل قصاب کی تاریخ وار کہانی

نومبر 2008 کو ممبئی میں دس شدت پسندوں نے حملہ کیا۔ اس حملے میں 166 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ دس حملہ آوروں میں بس ایک اجمل قصاب ہی زندہ پکڑا جا سکا۔
اجمل قصاب کو 21 نومبر، 2012 کو پونے کے يروڈا جیل میں صبح ساڑھے سات بجے پھانسی دے دی گئی۔حملے سے لے کر قصاب کو پھانسی دیے جانے تک کا مکمل احوال پیشِ خدمت ہے:
  • 26 نومبر، 2008: اجمل قصاب اور نو دہشت گردوں نے ممبئی پر حملہ کیا۔ حملے میں 166 افراد ہلاک ہو گئے۔
  • 27 نومبر، 2008: اجمل قصاب گرفتار۔
  • 30 نومبر، 2008: قصاب نے پولیس حراست میں ارتکابِ جرم کا اعتراف کر لیا۔
  • 27-28 دسمبر، 2008: اجمل قصاب کی شناخت پریڈ ہوئی۔
  • 13 جنوری، 2009: ایم ایل تھلياني کو 26/11 معاملے میں خصوصی جج مقرر کیا گیا۔
  • 16 جنوری، 2009: اجمل کے مقدمے کے لیے آرتھر روڈ جیل کو منتخب کیا گیا۔
  • 22 فروری، 2009: روشن نکم کو سرکاری وکیل مقرر کیا گیا۔
  • 25 فروری، 2009: میٹروپولیٹن کورٹ میں قصاب کے خلاف فردِ جرم داخل۔
  • 1 اپریل، 2009: خصوصی عدالت نے انجل واگھمارے کو قصاب کا وکیل مقرر کیا گیا۔
  • 20 اپریل، 2009: قصاب کو 312 مقدمات میں ملزم بنایا گیا۔
  • 29 اپریل، 2009: ماہرین کی رائے پر عدالت کا فیصلہ: قصاب نابالغ نہیں ہے۔
  • 6 مئی، 2009: قصاب پر 86 الزامات لگائے گئے، قصاب کا الزامات سے انکار۔
  • 23 جون، 2009: حافظ سعید، ذکی الرحمٰن، رحمٰن لکھوی سمیت 22 افراد کے خلاف غیر ضمانتی وارنٹ جاری۔
  • 16 دسمبر، 2009: استغاثہ نے 26/11 معاملے میں جرح مکمل کی۔
  • 9 مارچ، 2010: آخری بحث شروع ہوئی۔
  • 31 مارچ، 2010: فیصلہ تین مئی کے لیے محفوظ رکھا گیا۔
  • 3 مئی، 2010: عدالت نے قصاب کو مجرم قرار دیا، صبا الدين احمد اور فہیم انصاری الزامات سے بری۔
  • 6 مئی، 2010: قصاب کو خصوصی عدالت نے موت کی سزا سنائی۔
  • 18 اکتوبر، 2010: ممبئی ہائی کورٹ میں کیس کی سماعت شروع۔ قصاب کی ویڈیو كانفرنسنگ کے ذریعے پیشی۔
  • 19 اکتوبر، 2010: قصاب نے ذاتی طور پر عدالتی کارروائی میں حصہ لینے کا مطالبہ کیا۔
  • 21 اکتوبر، 2010: قصاب نے ذاتی طور پر عدالت میں حصہ لینے کی بات اپنے وکیل سے دہرائی۔
  • 25 اکتوبر، 2010: ہائی کورٹ کے ججوں نے سی سی ٹی وی فٹیج دیکھی۔
  • 27 اکتوبر، 2010: وکیل روشن نکم نے نچلی عدالت کی طرف سے دی گئی قصاب کی موت کی سزا کو درست قرار دیا۔
  • 29 اکتوبر، 2010: روشن نکم کے مطابق اجمل قصاب نے عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔
  • 19 نومبر، 2010: نکم نے عدالت کو بتایا کہ 26/11 کے حملہ آور ملک میں مسلمانوں کے لیے الگ ریاست چاہتے تھے۔
  • 22 نومبر، 2010: نکم نے قصاب کو جھوٹا قرار دیا۔
  • 23 نومبر، 2010: ہائی کورٹ کے ججوں نے ایک بار پھر سی سی ٹی وی فٹیج دیکھی۔
  • 24 نومبر، 2010: نکم کی ہائی کورٹ میں دلیل۔ نچلی عدالت نے قصاب کے اقبالی بیان کو قبول کرنے میں غلطی کی تھی۔
  • 25 نومبر، 2010: اجمل قصاب کے وکیل اميل سولكر نے جرح شروع کی۔ نچلی عدالت کی کارروائی کو غلط قرار دیتے ہوئے دوبارہ ٹرائل کا مطالبہ کیا۔
  • 30 نومبر 2010: سولكر نے دلیل دی کہ قصاب کے خلاف ملک کے خلاف جنگ چھیڑنے کا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔
  • 2 دسمبر 2010: وکیلِ دفاع نے عدالت میں کہا کہ اجمل قصاب پاکستان سے کشتی کے ذریعے نہیں آیا تھا کیونکہ کشتی میں صرف دس افراد ہی سما سکتے ہیں۔
  • 3 دسمبر 2010: وکیل کا کہنا تھا کہ اجمل قصاب کو پھنسانے کے لیے پولیس نے جھوٹی کہانی بنائی۔
  • 5 دسمبر 2010: دفاع کے وکیل سولكر نے دلیل دی کہ ثبوتوں کو دبا دیا گیا ہے۔ صرف کچھ سی سی ٹی وی فوٹیج عدالت میں دکھائی گئی۔
  • 6 دسمبر 2010: سولكر نے فوٹیج میں دکھائی گئی تصویروں کو غلط بتایا۔
  • 7 دسمبر 2010: قصاب نے پولیس افسر ہیمنت کرکرے اور دو دیگر پولیس افسران کے قتل سے انکار کیا۔ اس کے وکیل کا کہنا تھا کہ ہلاک ہونے والے پولیس اہلکاروں کے جسم میں پائی گئی گولیاں قصاب کی رائفل سے میچ نہیں ہوتی۔
  • 8 دسمبر 2010: سولكر کا کہنا تھا کہ پولیس نے گرگام چوپاٹی میں 26 نومبر 2008 کو جھوٹی جھڑپ کا ڈرامہ کرکے قصاب کو پھنسايا ہے۔ ساتھ ہی موقعے پر قصاب کی موجودگی سے انکار کرتے ہوئے اس کی گرفتاری کو غلط بتایا۔
  • 9 دسمبر 2010: اجمل قصاب کے وکیل نے اس کے خلاف پیش کیے گئے ثبوتوں کو کمزور بتاتے ہوئے پولیس افسر کرکرے کو مارے جانے سے انکار کیا۔
  • 10 دسمبر 2010: اجمل قصاب کے وکیل نے نچلی عدالت میں رکھی کشتی کا معائنہ كيا اور اس کشتی کو دس افراد کے آنے کے لیے ناكافي بتایا اور دعویٰ کیا کہ استغاثہ کا دعویٰ غلط ہے۔
  • 13 دسمبر 2010: قصاب نے اپنی ذہنی حالت کا معائنہ کرنے کے لیے طبی ماہرین کے ایک پینل کی تقرری کرنے کی بات کی۔
  • 14 دسمبر 2010: عدالت نے قصاب کی درخواست کو مسترد کر دیا۔
  • 21 دسمبر 2010: عدالت نے 26/11 کے معاملے میں فہیم انصاری کو بری کیے جانے کے خلاف ریاست کی اپیل سنی۔
  • 22 دسمبر 2010: سرکاری وکیل نکم نے دلیل دی کہ نچلی عدالت نے فہیم انصاری اور صباالدین احمد کو بری کرنے میں غلطی کی تھی۔
  • 21 فروری 2011: بامبے ہائی کورٹ نے اجمل قصاب پر نچلی عدالت کے فیصلے کو صحیح قرار دیا اور اس کی اپیل مسترد کر دی۔ ممبئی حملوں کے معاملے میں فہیم انصاری اور صباالدين احمد کو بری کر دیا گیا۔
  • 29 جولائی 2011: قصاب نے پھانسی کی سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی۔
  • 10 اکتوبر 2011: سپریم کورٹ نے اجمل قصاب کی پھانسی کی سزا معطل کر دی۔
  • 31 جنوری 2012: سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت شروع ہوئی۔
  • 25 اپریل 2012: اجمل قصاب کی اپیل پر عدالت نے سماعت مکمل کی اور فیصلہ محفوظ رکھا۔
  • 28 اگست 2012: اجمل قصاب کی پھانسی کی سزا کو سپریم کورٹ نے برقرار رکھا۔ فہیم انصاری اور صباالدین احمد کے بامبے ہائی کورٹ کی رہائی کے فیصلے کو بھی برقرار رکھا گیا۔ ان دونوں پر بھارت سے ممبئی حملہ آوروں کی مدد کرنے کا الزام تھا۔
  • 16 اکتوبر 2012: صدر کے سامنے رحم کے لیے بھیجی گئی قصاب کی درخواست وزارت داخلہ نے مسترد کر دی اور اپنی سفارش صدر کو بھیجی۔
  • 5 نومبر 2012: صدر نے قصاب کی رحم درخواست مسترد کر دی۔
  • 7 نومبر 2012: مرکزی وزیر داخلہ سشیل کمار شندے نے فائل پر دستخط کیے۔
  • 8 نومبر 2012: اجمل قصاب کو موت کی سزا دیے جانے کی فائل مہاراشٹر حکومت کو بھیجی گئی۔ اسی دن مہاراشٹر حکومت نے 21 نومبر کو موت کی سزا دینے کا فیصلہ کیا۔
  • 21 نومبر 2012: قصاب کو صبح 7:30 رازداری سے بجے پھانسی دے دی گئی۔ بشکریہ  بی بی سی اردو

Join us on Twitter:

 Join us on facebook:

Sunday, 18 November 2012










کرنل ا انعام الرحیم پر حملہ۔
راولپنڈینامعلوم افرادنے ریٹائرڈکرنل انعام الرحیم ایڈووکیٹ کی گاڑی کوآگ لگادی تاہم وہ گاڑی میں سوارنہ تھے۔
کرنل انعام الرحیم ایڈووکیٹ کابیٹا انھیں ڈسٹرکٹ کورٹ ڈراپ کرکے گاڑی ٹھیک کرانے کیلیے جارہاتھاجب وہ رحیم آباد کے مقام پر پہنچا تونامعلوم افراد نے اسے گاڑی سے اتار کر تشدد کا نشانہ بنایااور گاڑی کو آگ لگا دی۔کرنل(ر) انعام الرحیم پر قاتلانہ حملے اور ان کے بیٹے صہیب انعام پر تشدداور گاڑی جلانے کے واقعے کیخلاف ہائیکورٹ اور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشنز نے ہڑتال کردی، عدالتوںکابائیکاٹ کیا اوربارمیںاحتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا۔
بی بی سی کے مطابق کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کا کہنا ہے کہ ان پر حملہ انھیں بری فوج کے سربراہ کے خلاف مقدمے کی پیروی سے روکنے کی کوشش ہے۔ ایک سیکیورٹی عہدیدار نے لیفٹیننٹ کرنل(ر)انعام الرحیم ایڈووکیٹ کے نامعلوم افراد کی جانب سے ا ن کی گاڑی جلائے جانے کے دعوے کونیاڈرامہ قراردیتے ہوئے کہاہے کہ انعام الرحیم ایڈووکیٹ شہرت حاصل کرنے کیلیے ایسی حرکتیں کررہے ہیں ، انعام الرحیم کی لڑائی ٹیکسی ڈرائیورسے ہوئی جسے انھوں نے ایک اوررخ دے کر سیکیورٹی فورسزپرالزام عائدکردیا۔
تھانہ آرے بازار پولیس نے وکیل کرنل ( ر) انعام الرحیم کو نامعلوم افراد کی جانب سے اغوا کی کوشش کے دوران مزاحمت پر سرعام تشدد کا نشانہ بناکر زخمی کر نے اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دے کر فرارہونیوالے نامعلوم ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔مقدمہ کرنل ریٹائرڈانعام الرحیم کے جائے وقوع پر ابتدائی زبانی بیان پر ڈیوٹی آفیسر کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔ائیرپورٹ پولیس نے بھی صہیب الرحمان کواغوا کی کوشش،تشدد اورگاڑی جلانے پر جائے وقوع پر ابتدائی بیان پرپولیس کی مدعیت میں نامعلوم افراد کیخلاف مقدمہ درج کرلیا۔
صہیب الرحیم نے رابطہ کرنے پربتایاکہ وہ ٹیکسلا انجینئرنگ یونیورسٹی میں فائنل ائیر کے طالب علم ہے جس وقت واقعہ پیش آیاوہ تنہا تھے اور اس واقعے کے متعدد افرادعینی شاہدہیں ۔انھوں نے بتایاکہ پولیس کوتحریری درخواست دی لیکن جب ایف آئی آرکا پوچھا تو تھانے سے بتایا گیاکہ چونکہ ڈیوٹی آفیسرموقع پرموجود تھا اس لیے اسکی مدعیت میں مقدمہ درج کر لیا گیا۔
یاد رہے اس سے پہلے بھی کرنل انعام الرحیم کو  آئی ایس آئی نے بلا کر دھمکی دی تھی کہ "لاپتہ افراد" کا کیس لڑنا بند کر دیں۔ کرنل (ر) انعام الرحیم پیشے لے لحاظ وکیل ہیں اور وہ خفیہ اداروں کے ہاتھوں اغوا ہونے والے لوگوں کا کسی بھی لڑ رہے ہیں ۔
 For free news on Mobile type "FOLLOW<space>MEDIAMIRRORX" send 40404. free

Saturday, 17 November 2012


'کُکڑ' تے 'کوکڑی'

جو لوگ گاؤں کے رہنے والے ہیں یاوہ جو پنجابی جانتے ہیں وہ سمجھ گئے ہو ں گے کہ’’کُکڑ اور کوکڑی‘‘ کیا ہوتا ہے لیکن بعض لوگوں کو سمجھ نہیں آیا ہو گا تو ان کے لیے عرض کرتا چلوں کہ پنجابی میں مُرغے کو 'کُکڑ' کہتے ہیں اور جو  ان مرغوں کو لڑاتے ہیں ان 'کوکڑی' کہتے ہیں اور اردو میں ان معزز حضرات کو شکاری کہتے ہیں۔ اور جہاں ان مرغوں کا دنگل ہوتا ہے اس جگہ کو ’’پِڑ‘‘ کہتے ہیں اور دیکھنے والوں کو مجمع، تماشائی یا مہذب زبان میں تماشبین کہہ لیں۔یہ دنگل سارا سال ہوتے رہتے ہیں لیکن مخصوص مواقع یا مخصوص دنوں مثلاَ عیدیا میلوں وغیرہ پر ان میں تیزی آجاتی ہے ۔اس میں اعلٰی قسم کے مرغے بطور پہلوان حصہ لیتے ہیں اور ان کے پہلوانی نام بھی ہوتے ہیں مثلا باغی،  فرزند گاؤں،  ملتانی، سونامی،  لاہوری، گجراتی، دھرنا ،  بھیّاوغیرہ وغیرہ۔ مالکان سارا سال ان پہلوانوں(مرغوں) کی خدمت کرتے ہیں ان کو بادام ، چاندی کے ورق، زیتون کی مالش اور نہ جانے کیا کیا ۔ جب یہ میدان میں اترتے ہیں تو بغیر کسی ذاتی دشمنی اور انا کے ایک دوسرے کا وہ حال کرتے ہیں کہ مت پوچھیے، مار مار کے ایک دوسرے کو گنجا کر دیتے ہیں، آنکھ پھوڑ دیتے ہیں اور لہو لہان ہو جاتے ہیں لیکن باز نہیں آتے ،ٹائم ختم ہو جاتا ہے لیکن یہ اتنے ڈھیٹ اور ضدی ہوتے ہیں کہ اتنا بے عزت ہونے کے باوجودبھی اپنے مالک کی سر بلندی کے لیے میدان چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتے یہ تو بھلا ہو ریفری کا جو ٹائم ختم ہونے کی سیٹی بجا دیتا ہے۔ٹائم ختم ہونے پر بھی یہ مالک کے ہاتھ سے چھوٹ چھوٹ کر حملے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ تو تھا "کُکڑاور کوکڑی" او ر یہ ایک چھوٹے لیول کامقابلہ ہے جس سے صرف چند لوگ ہی محظوظ ہو پاتے ہیں اور وہ بھی گاؤں والے یاخال خال شہری بھی۔ لیکن اس سے ملتے جلتے گرینڈ مقابلے روزانہ بیسوں کی تعداد میں ہوتے ہیں جن سے نہ صرف پاکستانی دیہاتی اور شہری محظوظ ہوتے ہیں بلکہ پوری دنیا لطف اٹھاتی ہے اور ان کی وجہ سے ہماری ملکی شہرت کو چار چاند نہیں بلکہ سولہ چاند لگ گئے ہیں۔’’سمجھ تے تسی گئے ہوسو‘‘ جی بالکل وہی جنہوں نے ہمارے نجی چینلوں کی شہرت کو آسمان تک پہنچا دیا ہے۔یہ بھی بالکل ’’کُکڑ تے کوکڑی‘‘ والا شو ہے فرق صرف کریکٹرز کا ہے یہاں مرغوں کی جگہ سیاستدان، کوکڑی کی جگہ اینکر، میدان کی جگہ سیٹ اور تماشبین وہی عوام لیکن تعداد زیادہ اور کچھ غیر ملکی بھی۔ اس میں بھی ریفری (چینل )ٹائم سٹارٹ کی سیٹی بجاتا ہے اور کوکڑی یعنی اینکر مرغوں یعنی ہماری مہذب مخلوق سیاستدانوں کومیدان میں چھوڑ دیتا ہے اور پھر یہ مہذب پہلوان ایسے ایسے تہذیبی داؤ پیچ سے ایک دوسرے کو ایسی ایسی مات دیتے ہیں کہ کوکڑی یعنی اینکر کو ویلیں(ریٹنگ کے پیسے) ملتی ہیں، کُکڑوں  کے مالک ( پارٹی لیڈر )ان کو داد دیتے ہیں ، عوام خوشی سے تالیاں بجاتی ہے اور ترقی یافتہ دنیا کہ منہ کھلے رہ جاتے ہیں کہ ہیں ۔۔۔ پاکستانی اتنے ٹیلنٹڈ۔؟؟؟
یہ مقابلے سارا سال جاری رہتے ہیں اور ہم سب انجوائے کرتے ہیں اپنے حصے کے بادام ہم ان کوکھلا دیتے ہیں اور ان باداموں کے عوض یہ ہمیں ایسے ایسے تماشے دیکھاتے ہیں کہ اپنی ساری پریشانیاں(مہنگائی،لوڈشیڈنگ،دہشتگردی وغیرہ) بھول جاتے ہیں۔
آج تک نہ میں نے اور آپ نے بھی ایسا ٹاک شو کبھی نہیں دیکھا ہو گا جس میں کوئی سنجیدہ ملکی مسئلہ زیرِبحث لایا گیا ہوکہ اس سے بچنے کے لئے کیا کرنا چاہیے کوئی پلان آج تک پیش نہیں کیا گیا سوائے الزام بازی کے اور ایک دوسرے کی عزت اچھالنے کے (بالکل مرغوں کی طرح)۔ اور جب اِن سے عہدے پوچھیں تو کوئی پارٹی کا سیکریٹری اِطلاعات ہوتا ہے تو کوئی ملک کا وزیرِ اطلاعات ہوتا ہے،تعلیم پوچھیں تو کوئی اِنجینئز،کوئی پی ایچ ڈی تو کوئی ڈاکٹر ، اِن کے اساتذہ بھی ان پر رشک کرتے ہوں گے۔
دوسری طرف جب کوکڑی یعنی اینکرز کو دیکھتے ہیں تو ان کی ڈگریاں بھی اٹھانے نہیں ہوتی اور ذاتی لائیبریریوں میں بھی ضخیم کتابوں کی دھانکیں لگی ہوتی ہین اور نام لے ساتھ سینیئر، تجزیہ نگاراور دانشور جیسے القابات لگے ہوتے ہیں لیکن ٹاک شوز میں سوال ایسے ایسے پوچھتے ہیں کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے اوپر آہنی قسم کا پاکستانی خول چڑھا کر پاکستان کی ترقی اور عوام کی فلاح کی باتیں ایسے کرتے ہیں کہ لگتا ہے کہ عمرِفاروقؓ کے دور کے معزز ہیں۔آج تک ان محبانِ وطن کو توفیق نہیں ہوئی کہ ایکسپرٹس کو بلائیں اور مسائل پر تبصرے کے ساتھ اُن کا حل بھی بتائیں اور ایسی ٹپس بتائیں کہ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت کچھ کر سکیں اور ان میں مایوسی کم ہو۔ملک کے مختلف حصوں کے سروے کیے جائیں(وزراء کے ساتھ جہاز میں بیٹھ کے نہیں) اور وہاں کے مسائل اور وسائل کے لحاظ سے ان کی رہنمائی کی جائے تا کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکیں نا کہ یہ روزانہ کی کُکڑ لڑائی دکھائیں۔ لیکن جب ذاتی مفاد قومی مفاد پہ ہاوی ہو جائے تو کو'کڑی 'کو 'شو 'کی ریٹنگ نظر آتی ہے اور کُکڑ کو وزارت اور عوام کوصرف تماشہ۔
معین وٹو