Saturday, 30 March 2013


بھارت کے ایک گاؤں کی عجب ریت
عمر فاروق
بی بی سی، حیدرآباد
بھارت کی جنوبی ریاست آندھرا پردیش کے وارنگل ضلع میں ایک چھوٹا سا دور افتادہ گاؤں منگل تھانڈا ہے۔ اس گاؤں میں جب شادی ہو تو غریب سے غریب خاندان کو بھی ایک چیز لازمی طور سے جہیز میں دینی پڑتی ہے اور وہ ہے ٹرک کے ٹائر کی پرانی ٹيوب۔
اس منفرد تحفے یا جہیز کی وجہ یہ ہے کہ اس گاؤں کا راستہ ایک ندی نے روک رکھا ہے۔ یہاں کے لوگوں کو اگر کوئی چیز لینے کے لیے باہر جانا ہوتا ہے تو وہ ٹیوب کے سہارے ہی ندی پار کرتے ہیں۔
منگل تھانڈا پہنچنے کا راستہ اتنا خراب ہے کہ وہاں گاڑی سے پہنچنا ممکن نہیں۔ اور آپ پیدل جانا چاہیں تو پانچ کلو میٹر کی دوری طے کرنی ہوگی۔ اس گاؤں کو دنیا سے جوڑنے کا دوسرا راستہ ایک ندی ’واٹّے واگو‘ نے روک رکھا ہے۔ اس لیے اس گاؤں کے ہر خاندان کی زندگی ٹرک کی ٹیوب پر ٹکی ہوئی ہے جسے یہ لوگ ایک کشتی کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
منگل تھانڈا لمباڈا قبائل کا ایک ایسا گاؤں ہے جو اپنے راشن، سکول، ہسپتال، بینک اور دوسری تمام بنیادی سہولیات کے لیے دریا کے اس پار واقع سرپلّي گاؤں پر منحصر ہے۔
  وہاں تک پہنچنے کا واحد ذریعہ ٹیوب ہے جسے اتنی ہی اہمیت حاصل ہے جتنی کے ڈوبتے ہوئے انسان کے لیے ایک لائف جیکٹ کی ہوتی ہے۔ شاید اسی لیے ہر ماں باپ کو اپنی بیٹی کے جہیز میں ایک نہیں، بلکہ دو ٹیوب دینے پڑتے ہیں۔ ایک بیٹی کے لیے اور دوسرا داماد کے لیے تاکہ وہ محفوظ طریقے سے دریا پار جا آ سکیں۔
جب میں اس گاؤں میں گیا تو ہر گھر کے باہر ایک ٹیوب ایسے رکھی تھی جیسے کوئی گاڑی رکھی ہو، یا کوئی جانور بندھا ہو۔گاؤں کے ایک نوجوان تیجاوت نوین نے بتایا ’ٹیوب کے بغیر تو شادی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ پرانے ٹیوب کی قیمت تین سو سے پانچ سو روپے ہوتی ہے جبکہ نئی ٹیوب نو سو روپے میں ملتی ہے۔ میری شادی ہو گی تو میں بھی اپنی سسرال سے ایک ٹیوب مانگوں گا۔
ان لوگوں کی زندگی ٹیوب پر اس قدر منحصر ہے کہ جب ایک نئی نویلي دلہن کویتا اپنے مائکے آئی تو لوگ ان سے زیادہ ان کی ٹیوب کی خیر خبر لے رہے تھے۔ایک اور خاتون تكّو بھی وہ دن یاد کر کے ہنس رہی تھیں جب ان کی شادی میں ان کے والد نے دو ٹیوب دیے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر سال ایک نئی ٹیوب لینی پڑتی ہے کیونکہ پرانی خراب ہو جاتی ہے۔گاؤں کے ایک اور شخص گوگلت راملو کا کہنا ہے کہ اس گاؤں میں کوئی سہولت نہ ہونے سے انہیں ہر چیز کے لیے ندی پار سرپلّي جانا پڑتا ہے جس میں مہینے کا راشن بھی ہوتا ہے۔ کبھی کبھی ٹيوب کے ساتھ یہ لگاؤ جان لیوا بھی ثابت ہوتا ہے۔
غصے میں بھری ہوئی بھوكیہ كومٹي نے کہا ’دو سال میں چار لوگ اس دریا کو پار کرنے کی کوشش میں ڈوب چکے ہیں، ان میں تین خواتین تھیں۔ کبھی پانی کا بہاؤ اتنا تیز ہو جاتا ہے کہ یہ ٹیوب بھی ہمیں نہیں بچا سکتی ہے۔ آخر ہم کس طرح زندہ رہیں۔ اگر ہم دوسرے راستے سے جانا چاہتے ہیں تو کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ سہولیات کا یہ حال ہے کہ گاؤں میں بیت الخلا تک نہیں ہے۔
راستہ نہ ہونے کی وجہ سے کوئی افسر یہاں نہیں آتا ہے اور نہ ہی کسی فلاحی اسکیم کا فائدہ ان لوگوں کو مل پاتا ہے۔ یہ فطری بات ہے کہ سب سے زیادہ پریشانی کا سامنا عورتوں کو کرنا پڑتا ہے وہ بھی حاملہ خواتین کو۔
یک خاتون جمبلي نے بتایا کہ بچے کی پیدائش کے لیے اگر عورت کو ہسپتال جانا پڑے تو کوئی گاڑی گاؤں تک نہیں آ سکتی۔ اگر عورت کو نرسم پیٹ ہسپتال جانا پڑے تو اسے پہلے سرپلّي گاؤں جانا ہوگا جبکہ دوسرے راستے پر دستیاب ہسپتال 12 کلومیٹر دور ہے۔
خواتین کی طرح طلبہ کو بھی بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ گاؤں کے اسکول میں صرف دو کلاسیں ہیں اور آگے پڑھنے کے لیے انہیں دریا پار سرپلّي کے اسکول جانا پڑتا ہے۔ اس گاؤں کے سب سے زیادہ تعلیم یافتہ شخص جونیئر کالج کے پاس راجندر کا کہنا ہے کہ ’دریا پار کرتے ہوئے بچوں کے کپڑے گیلے ہو جاتے ہیں یا کیچڑ میں خراب ہو جاتے ہیں۔ پھر اسکول میں استاد ان کی پٹائی کرتے ہیں کہ ایسی گندی حالت میں کیوں آئے۔
ایسا نہیں ہے کہ گاؤں کے لوگوں نے اپنی پریشانیوں کے لیے کہیں فریاد نہیں کی جب بھی انتخابات آتے ہیں تو ہر امیدوار سڑک اور پل کا وعدہ کرتا ہے لیکن انتخابات کے بعد اسے کچھ یاد نہیں رہتا۔ ایک خاتون بھنوٹ بجّي کا ماننا ہے کہ ’قصور گاؤں کے مردوں کا بھی ہے۔جو بھی امیدوار ان کو شراب کی ایک بوتل دے دیتا ہے وہ اسی کو ووٹ دے دیتے ہیں۔ انہیں سڑک اور پل کی پرواہ نہیں ہوتی۔ تکلیف تو ہم خواتین کو اٹھانی پڑتی ہے۔
لیکن اب کی بار گاؤں والے سنجیدہ ہیں۔ جیسے جیسے انتخابات کی آہٹ بڑھ رہی ہے، گا‏ؤں والوں کا غصہ بڑھ رہا ہے اور انہوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اگر اس سے پہلے پل یا سڑک کی تعمیر نہیں ہوئی تو وہ انتخابات کا بائیکاٹ کر دیں گے اور گاؤں کے 250 ووٹ کسی کو بھی نہیں ملیں گے۔
www.twitter.com/MediaMirrorX